(آیت 57) ➊ اِنَّ الَّذِيْنَ هُمْ مِّنْ خَشْيَةِ رَبِّهِمْ مُّشْفِقُوْنَ:”إِشْفَاقٌ “ کا معنی ہے متوقع چیز کا شدید خوف اور ”وَجِلٌ“ بروزن ”فَزِعٌ“ کا معنی ہے، سخت ڈرنے والا۔ اس سے پہلے غفلت میں مبتلا ان لوگوں کا ذکر فرمایا جن کے ہاں کفر و فسق کے باوجود مال اور بیٹوں کی فراوانی ہوتی جاتی ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہم پر خوش ہے، تبھی یہ سب کچھ ہمیں دے رہا ہے۔ اب ان کے مقابلے میں مخلص و مومن بندوں کا ذکر ہے، جو کمال ایمان و عمل کے باوجود عجب اور خود پسندی سے محفوظ ہیں اور ہر وقت اس بات سے خوف زدہ رہتے ہیں کہ ہمیں اپنے رب کے حضور پیش ہونا ہے۔ کیا خبر اس کی جناب میں ہمارے عمل قبول ہوتے ہیں یا نہیں۔
➋ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنے مخلص مومن بندوں کی چار صفات بیان فرمائی ہیں، پہلی یہ کہ وہ اپنے رب سے بہت ڈرنے والے ہیں کہ وہ ناراض نہ ہو جائے۔ واضح رہے کہ اہل ایمان کا اپنے رب سے یہ خوف اس قسم کا نہیں ہوتا جیسے کسی جابر و ظالم بے رحم سے ہوتا ہے، بلکہ وہ اسے اپنا رب یعنی ہر نعمت عطا کرنے والا سمجھ کر اس کے ساتھ انتہائی محبت کے ساتھ ساتھ اس کی ناراضی کے خطرے سے انتہائی خوف بھی رکھتے ہیں۔