(آیت 33) ➊ وَ قَالَ الْمَلَاُ مِنْ قَوْمِهِ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا …: اس آیت میں ان کے سرداروں کی اپنے رسول کو بشر کہہ کر جھٹلانے کی دو بڑی وجہیں بیان ہوئی ہیں، ایک یہ کہ وہ آخرت کی ملاقات کو جھٹلاتے تھے اور دوسری یہ کہ انھیں دنیا میں وسیع خوش حالی حاصل تھی۔ ”تَرَفٌ“ کا معنی وسیع خوش حالی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امتِ مسلمہ میں سے حدیث کے منکر کا بھی یہی حال بیان کیا کہ اس کے انکار میں اس کی خوش حالی اور فارغ البالی کا دخل ہو گا۔ مقدام بن معدیکرب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ أَلَا إِنِّيْ أُوْتِيْتُ الْكِتَابَ وَ مِثْلَهُ مَعَهُ، أَلَا يُوْشِكُ رَجُلٌ شَبْعَانُ عَلٰی أَرِيْكَتِهِ يَقُوْلُ عَلَيْكُمْ بِهٰذَا الْقُرْآنِ فَمَا وَجَدْتُمْ فِيْهِ مِنْ حَلَالٍ فَأَحِلُّوْهُ وَمَا وَجَدْتُمْ فِيْهِ مِنْ حَرَامٍ فَحَرِّمُوْهُ، أَلَا، لَا يَحِلُّ لَكُمُ الْحِمَارُ الْأَهْلِيُّ وَلَا كُلُّ ذِيْ نَابٍ مِنَ السَّبُعِ ][ أَبوداوٗد، السنۃ، باب في لزوم السنۃ…: ۴۶۰۴ ]”سنو! مجھے کتاب دی گئی ہے اور اس کے ساتھ اس کی مثل (حدیث) دی گئی ہے۔ سنو! قریب ہے کہ ایک بھرے ہوئے پیٹ والا (یعنی خوش حال) آدمی جو اپنے تخت پر تکیہ لگائے ہو گا، یہ کہے گا کہ اس قرآن کو لازم پکڑو، جو اس میں حلال پاؤ اسے حلال سمجھو اور جو اس میں حرام پاؤ اسے حرام سمجھو۔ سنو! تمھارے لیے گھریلو گدھا حلال نہیں اور نہ کچلی والا درندہ حلال ہے (حالانکہ یہ قرآن میں نہیں بلکہ حدیث رسول میں ہے)۔“
➋ يَاْكُلُ مِمَّا تَاْكُلُوْنَ …:”بشر رسول نہیں ہو سکتا“ پیغمبروں کو جھٹلانے والے سبھی لوگوں نے یہی کہا۔ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اس میں تسلی ہے کہ آپ اس تکذیب میں اکیلے نہیں، کیونکہ آپ کے متعلق بھی کفار نے کہا تھا: «مَالِ هٰذَا الرَّسُوْلِ يَاْكُلُ الطَّعَامَ وَ يَمْشِيْ فِي الْاَسْوَاقِ»[ الفرقان: ۷ ]”اس رسول کو کیا ہے کہ کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے۔“
➌ سورۂ اعراف اور سورۂ ہود میں پیغمبروں کی نصیحت کے بعد قوم کے سرداروں کی بات ” قَالَ الْمَلَاُ “ سے شروع ہوتی ہے، جب کہ اس سورت میں نوح علیہ السلام کی نصیحت کے بعد ” فَقَالَ الْمَلَؤُا “ ہے اور زیر تفسیر آیت میں ” وَ قَالَ الْمَلَاُ“ ہے۔ اس فرق کی توجیہ ابن عاشور رحمہ اللہ نے یہ بیان فرمائی ہے کہ ان دونوں سورتوں یعنی اعراف اور ہود میں پیغمبروں کی نصیحت کے بعد قوم کے سرداروں کا پیغمبروں سے براہ راست خطاب ہے، اس لیے ”فاء“ یا ”واؤ“ کی ضرورت نہیں، جب کہ یہاں پیغمبروں کی نصیحت کے بعد قوم کے سرداروں کا پیغمبروں کو جواب مذکور نہیں، بلکہ اس کے بعد ان کا اپنے لوگوں کے پاس جا کر انھیں بہکانا مذکور ہے، تاکہ وہ پیغمبر کی بات سے متاثر نہ ہو جائیں، اس لیے ”فاء“ اور ”واؤ“ لائی گئی ہیں۔