(آیت 31) ثُمَّ اَنْشَاْنَا مِنْۢ بَعْدِهِمْ قَرْنًا اٰخَرِيْنَ: اس سے مراد اکثر مفسرین نے قومِ عاد لی ہے، کیونکہ قومِ نوح کے جانشین یہی لوگ بنے تھے۔ ہود علیہ السلام نے ان سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا: « وَ اذْكُرُوْۤا اِذْ جَعَلَكُمْ خُلَفَآءَ مِنْۢ بَعْدِ قَوْمِ نُوْحٍ »[ الأعراف: ۶۹ ]”اور یاد کرو جب اللہ نے تمھیں قومِ نوح کا جانشین بنایا۔“ مگر بہت سے مفسرین نے اس سے مراد صالح علیہ السلام کی قوم ثمود لی ہے، کیونکہ یہاں ” الصَّيْحَةُ “(چیخ) کا ذکر ہے اور ”صیحہ“ یعنی چیخ سے ہلاک ہونے والے ثمود تھے۔ اس کے علاوہ اہل عرب کی نصیحت کے لیے قوم ثمود کا تذکرہ زیادہ موزوں تھا، کیونکہ پہاڑوں کو تراش کر ان کے بنائے ہوئے مکانات مقام حجر میں ان کے سامنے موجود تھے۔ امام طبری، ابن عاشور اور مفسر سعدی وغیرہم نے اسی کو ترجیح دی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں کسی قوم کا نام نہیں لیا، کیونکہ مراد تاریخ کا بیان یا قصہ گوئی نہیں بلکہ عبرت ہے کہ بعد میں آنے والوں نے بھی پہلوں کے انجام سے کوئی سبق حاصل نہ کیا، آخر اللہ کی گرفت کا نشانہ بنے۔