(آیت 12) ➊ وَ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ سُلٰلَةٍ مِّنْ طِيْنٍ: ” سُلٰلَةٍ “”سَلَّ يَسُلُّ“ کوئی چیز نرمی کے ساتھ کھینچتے ہوئے نکالنا۔ ”سَلَلْتُ السَّيْفَ“”میں نے میان سے تلوار نکالی۔“”اَلسُّلَالَةُ“ بمعنی ” اَلشَّيْءُ الْمَسْلُوْلُ“ یعنی کسی چیز کا خلاصہ۔ ”فُعَالَةٌ“ کے وزن میں قلت کا مفہوم پایا جاتا ہے، جیسے ”قُلَامَةٌ“ قلم کا تراشہ اور ” صُبَابَةٌ “ تھوڑا سا گرا ہوا پانی۔
➋ ان آیات کی پچھلی آیات کے ساتھ مناسبت یہ معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فلاح پانے والے مومنوں کے فردوس کے وارث ہونے کا ذکر فرمایا، تو ظاہر ہے کہ یہ قیامت کے دن ہی ہو گا، اس لیے قیامت اور موت کے بعد زندگی کی دلیل کے طور پر انسان کی پہلی دفعہ پیدائش کا ذکر فرمایا، پھر کائنات میں اس سے بھی بڑی مخلوقات آسمان و زمین اور ان میں موجود نعمتوں کا ذکر دلیل کے طور پر فرمایا کہ جس نے یہ سب کچھ پہلی دفعہ پیدا کیا وہ دوبارہ زندہ کرنے پر بھی قادر ہے۔ پھر اللہ کی توحید اور دوبارہ زندہ کرنے کی قدرت کے منکروں کے انجام بد سے ڈرایا، چنانچہ سب سے پہلے نوح علیہ السلام کی قوم کے انکار اور ان پر آنے والے عذاب کا ذکر فرمایا۔ واللہ اعلم (نظم الدرر للبقاعی)
➌ مِنْ سُلٰلَةٍ مِّنْ طِيْنٍ: ” طِيْنٍ “ کی تنوین تحقیر کے لیے ہے اور ” سُلٰلَةٍ “ میں بھی قلت کا مفہوم موجود ہے، یعنی یہ انسان جسے تم چلتے پھرتے اور ہنستے مسکراتے دیکھتے ہو اس کی ابتدا حقیر مٹی کے تھوڑے سے خلاصے کے ساتھ ہوئی۔ ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ إِنَّ اللّٰهَ خَلَقَ آدَمَ مِنْ قَبْضَةٍ قَبَضَهَا مِنْ جَمِيْعِ الْأَرْضِ فَجَاءَ بَنُوْ آدَمَ عَلٰی قَدْرِ الْأَرْضِ جَاءَ مِنْهُمُ الْأَحْمَرُ وَالْأَبْيَضُ وَالْأَسْوَدُ وَ بَيْنَ ذٰلِكَ وَالسَّهْلُ وَالْحَزْنُ وَالْخَبِيْثُ وَالطَّيِّبُ ][ أبو داوٗد، السنۃ، باب في القدر: ۴۶۹۳ ]”اللہ عزو جل نے آدم کو ایک مٹھی مٹی سے پیدا کیا ہے، جسے اس نے تمام روئے زمین سے جمع فرمایا تھا۔ چنانچہ آدم کی اولاد اس مٹی کے لحاظ سے ہوئی ہے، کئی سرخ ہیں اور کئی سفید، کئی سیاہ ہیں اور کئی ان کے بین بین۔ کئی نرم خو ہیں اور کئی سخت طبیعت۔ کئی بری طبیعت کے مالک ہوتے ہیں اور کئی اچھی اور عمدہ طبیعت والے۔“ اس آیت میں آدم علیہ السلام کی پیدائش کا ذکر ہے۔