(آیت 9) ➊ وَ الَّذِيْنَ هُمْ عَلٰى صَلَوٰتِهِمْ يُحَافِظُوْنَ: فلاح پانے والے مومنوں کی پہلی صفت نماز میں خشوع بیان فرمائی اور دوسرے اوصاف بیان کرنے کے بعد آخر میں پھر نماز ہی سے تعلق رکھنے والی ایک صفت بیان فرمائی کہ وہ اپنی نمازوں کی خوب حفاظت کیا کرتے ہیں۔ اس سے ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں نماز کی کس قدر اہمیت ہے۔
➋ ” يُحَافِظُوْنَ “ باب مفاعلہ سے مبالغے کے لیے ہے، کیونکہ یہاں مقابلے کا معنی مراد نہیں ہو سکتا۔ ”يَحْفَظُوْنَ“”حفاظت کرتے ہیں“ اور ” يُحَافِظُوْنَ “”خوب حفاظت کرتے ہیں۔“ محافظت سے مراد نماز ہمیشہ ادا کرنا اور ہر نماز کو اس کے وقت پر ادا کرنا ہے۔ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ”میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: ”یا رسول اللہ! کون سا عمل اللہ کو سب سے زیادہ محبوب ہے؟“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ اَلصَّلَاةُ عَلٰی وَقْتِهَا ]”نماز اس کے وقت پر ادا کرنا۔“ میں نے کہا: ”پھر کون سا عمل؟“ فرمایا: ”والدین سے حسن سلوک۔“ میں نے کہا: ”پھر کون سا؟“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جہاد فی سبیل اللہ۔“[ بخاري، مواقیت الصلاۃ، باب فضل الصلاۃ لوقتھا: ۵۲۷۔ مسلم: ۸۵ ] مستدرک حاکم (۱؍۱۸۸، ح: ۶۷۴) میں ہے: [ اَلصَّلَاةُ فِيْ أَوَّلِ وَقْتِهَا ]”نماز اس کے اول وقت میں ادا کرنا۔“ حاکم نے فرمایا، یہ لفظ دو ثقہ راویوں بندار بن بشار اور حسن بن مکرم کی روایت سے ثابت ہیں، جو ان دونوں نے عثمان بن عمرو سے روایت کی ہے اور یہ شیخین کی شرط پر صحیح ہے، جب کہ شیخین نے اسے روایت نہیں کیا۔