(آیت 6) ➊ اِلَّا عَلٰۤى اَزْوَاجِهِمْ …: اس سے معلوم ہوا کہ اسلام جوگیوں، راہبوں اور بعض صوفیوں کی طرح جنسی خواہش کو سرے سے روک دینے کا حکم نہیں دیتا، بلکہ بیویوں اور لونڈیوں سے جماع کو جائز قرار دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نکاح کا حکم دیا ہے، فرمایا: «وَ اَنْكِحُوا الْاَيَامٰى مِنْكُمْ وَ الصّٰلِحِيْنَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَ اِمَآىِٕكُمْ اِنْ يَّكُوْنُوْا فُقَرَآءَ يُغْنِهِمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ وَ اللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِيْمٌ» [ النور: ۳۲ ]”اور اپنے میں سے بے نکاح مردوں، عورتوں کا نکاح کر دو اور اپنے غلاموں اور اپنی لونڈیوں سے جو نیک ہیں ان کا بھی، اگر وہ محتاج ہوں گے تو اللہ انھیں اپنے فضل سے غنی کر دے گا اور اللہ وسعت والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تین صحابہ سے جن میں سے ایک نے نکاح نہ کرنے کا ارادہ کیا تھا، فرمایا: [ أَمَا وَاللّٰهِ! إِنِّيْ لَأَخْشَاكُمْ لِلّٰهِ وَ أَتْقَاكُمْ لَهُ، لٰكِنِّيْ أَصُوْمُ وَ أُفْطِرُ وَ أُصَلِّيْ وَ أَرْقُدُ وَ أَتَزَوَّجُ النِّسَاءَ، فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِيْ فَلَيْسَ مِنِّيْ ][ بخاري، النکاح، باب الترغیب في النکاح…: ۵۰۶۳ ]”اللہ کی قسم! میں تم سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا اور تم سب سے زیادہ اس سے بچنے والا ہوں، لیکن (اس کے باوجود) میں روزہ رکھتا بھی ہوں اور چھوڑتا بھی ہوں، میں قیام اللیل بھی کرتا ہوں اور سوتا بھی ہوں اور میں عورتوں سے نکاح کرتا ہوں، پھر جو میری سنت سے بے رغبتی کرے وہ مجھ سے نہیں۔“
➋ ” اِلَّا عَلٰۤى اَزْوَاجِهِمْ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُهُمْ “ سے معلوم ہوا کہ شہوت پوری کرنے کے لیے مسلمان مرد کے پاس صرف دو راستے ہیں، بیوی اور لونڈی اور عورت کے لیے صرف ایک راستہ ہے اور وہ ہے خاوند یا لونڈی کا مالک۔ کیونکہ جب بیوی خاوند کے لیے حلال ہوئی تو خاوند بیوی کے لیے خود بخود حلال ہو گیا۔ عورت اپنے غلام سے حاجت پوری نہیں کر سکتی، کیونکہ ” عَلٰۤى“ کا لفظ اس سے منع کرتا ہے، جو بلندی اور اوپر ہونے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔
➌ اس آیت سے یہ معلوم ہوا کہ کسی عورت سے جماع کے جواز کے لیے نکاح ضروری ہے، یا اس کا مملوکہ ہونا۔ مالک کو مملوکہ لونڈی کے لیے نکاح کی ضرورت نہیں، اگر مالک کو اس سے جماع کے لیے نکاح ضروری ہوتا تو ” عَلٰۤى اَزْوَاجِهِمْ “ ہی کافی تھا، مملوکہ لونڈیوں کا الگ ذکر کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔