یزید بن بابنوس رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ہم نے عائشہ رضی اللہ عنھا سے پوچھا: [ يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِيْنَ! كَيْفَ كَانَ خُلُقُ رَسُوْلِ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ؟ قَالَتْ كَانَ خُلُقُ رَسُوْلِ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ الْقُرْآنَ، ثُمَّ قَالَتْ تَقْرَأُ سُوْرَةَ الْمُؤْمِنِيْنَ؟ اقْرَأْ: «قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ» حَتّٰی بَلَغَ الْعَشْرَ، فَقَالَتْ هٰكَذَا كَانَ خُلْقُ رَسُوْلِ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ][مستدرک حاکم: 392/2، ح: ۳۴۸۱، قال الحاکم صحیح الإسناد۔ مسلم، صلاۃ المسافرین، باب جامع صلاۃ اللیل و من نام عنہ أو مرض: ۷۴۶ ]”اے ام المومنین! ہمیں بتائیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خلق کیا تھا؟“ انھوں نے فرمایا: ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خلق قرآن تھا۔“ پھر انھوں نے فرمایا: ”سورۂ مومنون پڑھتے ہو؟ پڑھو: «قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ» “ دس آیات تک تلاوت کرنے کے بعد فرمایا: ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خلق ایسے ہی تھا۔“ ذہبی نے حاکم کے فیصلے کو برقرار رکھا ہے اور شیخ البانی رحمہ اللہ نے ”صحيح الأدب المفرد (۲۳۴)“ میں اسے صحیح کہا ہے۔ خلق کا معنی ایسی عادت ہے جو آدمی کی پیدائشی اور طبعی عادت بن جائے اور کسی مشقت کے بغیر خود بخود ادا ہوتی رہے۔ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنھا کا مطلب یہ ہے کہ پورا قرآن ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت بن چکا تھا اور سورۂ مومنون کے شروع کی دس آیات میں جو اوصاف بیان ہوئے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے اس طرح آراستہ تھے کہ وہ آپ کی طبیعت بن چکے تھے۔
(آیت 1) ➊ قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ: ” قَدْ “ حرف ” لَمَّا “ کی نقیض ہے۔ ” لَمَّا “ کا مفہوم یہ ہے کہ متوقع کام ماضی میں ابھی تک نہیں ہوا، جیسا کہ فرمایا: « كَلَّا لَمَّا يَقْضِ مَاۤ اَمَرَهٗ»[ عبس: ۲۳ ]”ہر گز نہیں، ابھی تک اس (انسان) نے وہ کام پورا نہیں کیا جس کا اس نے اسے حکم دیا تھا۔“ جب کہ ” قَدْ “ ماضی کو حال کے قریب کر دیتا ہے اور جملہ فعلیہ میں تاکید کا وہی فائدہ دیتا ہے جو جملہ اسمیہ میں ”إِنَّ“ اور ”لام تاکید“ دیتے ہیں۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ جس کام کی توقع تھی وہ ماضی قریب میں یقینا واقع ہو چکا ہے۔ یعنی آگے ذکر کردہ صفات والے مومن یقینا فلاح پا چکے ہیں۔ مستقبل میں حاصل ہونے والی کامیابی کو یقینی ہونے کی وجہ سے ” قَدْ “ اور ماضی کے صیغہ ” اَفْلَحَ “ کے ساتھ ذکر فرمایا ہے۔ (بقاعی وابن عاشور)
” قَدْ “ کے ساتھ تاکید کی وجہ یہ ہے کہ اس سے پہلے بہت سی آیات میں ایمان والوں کو فلاح کی امید دلائی گئی تھی، جیسا کہ پچھلی سورت کے آخر میں فرمایا: « وَ افْعَلُوا الْخَيْرَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ »[ الحج: ۷۷ ]”اور نیکی کرو، تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ۔“ تو اس توقع کے پورا کرنے کی خوش خبری ” قَدْ اَفْلَحَ “ کے ساتھ بیان فرمائی۔ شاید نماز کی اقامت ” قَدْ قَامَتِ الصَّلَاةُ “ میں حرف ” قَدْ “ اسی وجہ سے ہے کہ نمازی شوق سے جماعت کے انتظار میں ہوتے ہیں۔ ” قَدْ قَامَتِ الصَّلَاةُ“ اسی انتظار کا اثبات میں جواب ہے، جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ يَا بِلَالُ! أَقِمِ الصَّلَاةَ أَرِحْنَا بِهَا ][ أبو داوٗد، الأدب، باب في صلاۃ العتمۃ: ۴۹۸۵ ]”بلال! نماز کھڑی کرو، ہمیں اس کے ساتھ راحت دلاؤ۔“(ابن عاشور)
➋ اَفْلَحَ: ”اَلْفَلَحُ“ لام کے فتحہ کے ساتھ اور ”اَلْفَلَاحُ“ کا معنی بھلائی کے کام میں کامیابی ہے اور ”اَلْفَلْحُ“ لام کے سکون کے ساتھ ”پھاڑنا۔“ دونوں باب ”مَنَعَ“ سے آتے ہیں۔ کہا جاتا ہے: ”اَلْحَدِيْدُ بِالْحَدِيْدِ يُفْلَحُ“”لوہا، لوہے کے ساتھ کاٹا جاتا ہے۔“ کسان کو اسی لیے ”اَلْفَلَّاحُ“ کہتے ہیں کہ وہ زمین کو پھاڑتا ہے۔ گویا فلاح وہ کامیابی ہے جو محنت و مشقت کے نتیجے میں حاصل ہو۔ کامیابی دنیا کی بھی ہے اور آخرت کی بھی۔
➌ ” قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ “ میں یہ بتایا ہے کہ بعد میں ذکر کردہ صفات والے مومن یقینا کامیاب ہو گئے، مگر یہ نہیں بتایا کہ کس چیز میں کامیاب ہو گئے۔ یہ بات ان آیات کے آخر میں بیان فرمائی ہے، فرمایا: « اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْوٰرِثُوْنَ (10) الَّذِيْنَ يَرِثُوْنَ الْفِرْدَوْسَ »[ المؤمنون: ۱۰، ۱۱ ]”یہی لوگ ہیں جو وارث ہیں۔ جو فردوس کے وارث ہوں گے۔“ یعنی کامیابی سے مراد آخرت کی کامیابی ہے، کیونکہ حقیقی زندگی وہی ہے، فرمایا: « وَ اِنَّ الدَّارَ الْاٰخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ لَوْ كَانُوْا يَعْلَمُوْنَ »[ العنکبوت: ۶۴ ]”اور بے شک آخری گھر، یقینا وہی اصل زندگی ہے، اگر وہ جانتے ہوتے۔“ دنیا کی زندگی نہ حقیقی زندگی ہے اور نہ اس کی کامیابی حقیقی کامیابی، فرمایا: « فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَ اُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ وَ مَا الْحَيٰوةُ الدُّنْيَاۤ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ »[ آل عمران: ۱۸۵ ]”پھر جو شخص آگ سے دور کر دیا گیا اور جنت میں داخل کر دیا گیا تو یقینا وہ کامیاب ہوگیا اور دنیا کی زندگی تو دھوکے کے سامان کے سوا کچھ نہیں۔“
➍ کامیاب ہونے والوں کے اوصاف میں سب سے پہلے ایمان کا ذکر فرمایا، کیونکہ ایمان ہی کامیابی کا اصل سبب ہے، پھر بعد کی آیات میں اہلِ ایمان کی چند مزید صفات بیان فرمائیں جو ایمان کے درست اور پختہ ہونے کی دلیل ہیں اور جن کے بغیر ایمان بے معنی ہے۔