(آیت 78) ➊ وَ جَاهِدُوْا فِي اللّٰهِ حَقَّ جِهَادِهٖ: ” جِهَادِ“”جَهَدَ يَجْهَدُ“(ف) میں سے باب مفاعلہ کا مصدر ہے۔ اس کا معنی ہے کسی کے مقابلے میں اپنی پوری کوشش صرف کرنا۔ یہ لفظ اصل میں اللہ کے راستے میں لڑائی کے متعلق بولا جاتا ہے، یہاں یہی مراد ہے، کیونکہ یہی سورۂ مبارکہ ہے جس میں سب سے پہلے کفار سے لڑنے کی اجازت دی گئی اور لڑنے والوں کو اللہ کی نصرت کی خوش خبری دی گئی۔ دیکھیے اس سورت کی آیت (۳۹)” اُذِنَ لِلَّذِيْنَ يُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّهُمْ ظُلِمُوْا۔“ اب اس آیت میں اِذن سے بڑھ کر جہاد کا حکم دے دیا ہے۔ (ابن عاشور) ویسے جہاد کا لفظ ہر اس کوشش پر بھی بولا جاتا ہے جو کفار کے مقابلے میں اسلام کی سربلندی کے لیے جان، مال، زبان یا قلم کے ساتھ کی جائے، بلکہ نفس کی ناجائز خواہشوں کے مقابلے پر بھی بولا جاتا ہے، جیسا کہ فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع میں فرمایا: [ أَلاَ أُخْبِرُكُمْ بِالْمُؤْمِنِ؟ مَنْ أَمِنَهُ النَّاسُ عَلٰی أَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ وَالْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ النَّاسُ مِنْ لِّسَانِهِ وَيَدِهِ وَالْمُجَاهِدُ مَنْ جَاهَدَ نَفْسَهُ فِيْ طَاعَةِ اللّٰهِ وَالْمُهَاجِرُ مَنْ هَجَرَ الْخَطَايَا وَالذُّنُوْبَ ][ مسند أحمد: 21/6، ح: ۲۴۰۱۳ ]”کیا میں تمھیں مومن کے بارے میں بتاؤں؟ مومن وہ ہے جس سے لوگ اپنی جانوں اور مالوں کے بارے میں بے خوف ہوں اور مسلم وہ ہے کہ لوگ اس کی زبان اور ہاتھ سے سلامت رہیں اور مجاہد وہ ہے جو اللہ کی فرماں برداری میں اپنے نفس سے جہاد کرے اور مہاجر وہ ہے جو خطائیں اور گناہ چھوڑ دے۔“ علامہ البانی رحمہ اللہ نے سلسلہ صحیحہ (۲ /۸۱) میں لکھا ہے: ”اسے امام احمد نے اپنی مسند (۶ /۲۱) میں روایت کیا ہے۔ سند صحیح ہے اور اس کے تمام راوی ثقہ ہیں۔“ امام المفسرین طبری نے فرمایا، اہلِ تاویل کا اللہ کے فرمان ” وَ جَاهِدُوْا فِي اللّٰهِ حَقَّ جِهَادِهٖ “ کے متعلق اختلاف ہے، ان میں سے بعض نے فرمایا کہ اس کا معنی ہے کہ مشرکین سے اللہ کے راستے میں جہاد کرو، جیسا اس کے جہاد کا حق ہے۔ پھر طبری نے اپنی سند سے ابن عباس رضی اللہ عنھما کا قول ذکر فرمایا: ” «وَ جَاهِدُوْا فِي اللّٰهِ حَقَّ جِهَادِهٖ» كَمَا جَاهَدْتُّمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ “”یعنی اس آیت ”اللہ کے بارے میں جہاد کرو جیسا اس کے جہاد کا حق ہے“ کا مطلب ہے، جیسا کہ تم نے پہلی مرتبہ جہاد کیا تھا۔“ اور بعض نے فرمایا کہ اللہ کے بارے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے مت ڈرو، یہی جہاد کا حق ہے۔ پھر طبری نے یہ قول بھی ابن عباس رضی اللہ عنھما سے اپنی سند سے بیان فرمایا۔ کچھ اور نے فرمایا، اس کا معنی ہے کہ حق پر عمل کرو، جیسا کہ اس پر عمل کا حق ہے۔ طبری فرماتے ہیں، یہ قول ضحاک سے بعض ایسے راویوں نے ذکر کیا ہے جن کی روایت میں نظر ہے۔ آخر میں امام طبری اپنا فیصلہ بیان فرماتے ہیں: ” وَالصَّوَابُ مِنَ الْقَوْلِ فِيْ ذٰلِكَ قَوْلُ مَنْ قَالَ عُنِيَ بِهِ الْجِهَادَ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ لِأَنَّ الْمَعْرُوْفَ مِنَ الْجِهَادِ ذٰلِكَ، وَهُوَ الْأَغْلَبُ عَلٰي قَوْلِ الْقَائِلِ جَاهَدْتُّ فِي اللّٰهِ“”اس آیت کی تفسیر میں درست بات اس کی ہے جس نے کہا کہ اس سے مراد جہاد فی سبیل اللہ ہے، کیونکہ جہاد کا معروف معنی یہی ہے اور جب کوئی کہے کہ میں نے اللہ (کے راستے) میں جہاد کیا تو اس کا اغلب معنی یہی ہے۔“ امام طبری نے یہ بہت عمدہ بات فرمائی ہے، کیونکہ اگر ہر گناہ چھوڑنے والا مہاجر کہلا سکتا ہے تو انصار و مہاجرین کا فرق ختم ہو جاتا ہے اور اگر ہر دین پڑھانے والا، قرآن کا قاری، کسی دینی رسالے یا ادارے کا مدیر یا اپنے نفس سے جہاد کرنے والا مجاہد کہلا سکتا ہے تو کفار کے مقابلے میں جان و مال سب کچھ قربان کر دینے والے اور کسی مفتی و مدرس اور اپنے نفس سے جہاد کرنے والے کسی مسلم کے درمیان مجاہد کہلانے میں کوئی فرق نہیں رہے گا، بلکہ سارے مسلمان ہی مجاہد کہلائیں گے، جب کہ مجاہد صرف مجاہد ہی کو کہتے ہیں، کسی مدرس، مبلغ، مفتی، مصنف یا نفس سے جہاد کرنے والے کو کوئی مجاہد نہیں کہتا۔ رہی حدیث کہ مجاہد وہ ہے جو اللہ کی فرماں برداری میں اپنے نفس سے جہاد کرے، تو اس میں مجاہدین کو نصیحت ہے کہ صرف کفار سے لڑنے کو کافی نہ سمجھنا، اصل مجاہد تم اس وقت بنو گے جب اللہ کی فرماں برداری میں اپنے نفس سے جہاد کرو گے اور مہاجرین کو نصیحت ہے کہ صرف ترک وطن کو کافی نہ سمجھنا، اصل مہاجر تم اس وقت بنو گے جب خطائیں اور گناہ چھوڑ دو گے۔
➋ بعض لوگ کفار سے جہاد کی اہمیت کم کرنے کے لیے ایک روایت بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تبوک سے واپسی پر فرمایا: [ رَجَعْنَا مِنَ الْجِهَادِ الْأَصْغَرِ إِلَی الْجِهَادِ الْأَكْبَرِ ]”ہم چھوٹے جہاد سے بڑے جہاد کی طرف واپس آئے ہیں۔“ گویا کفار سے لڑائی چھوٹا جہاد ہے، حالانکہ یہ روایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہر گز ثابت نہیں۔ شیخ البانی رحمہ اللہ نے [سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة ۲۴۶۰] میں اس پر مفصل بحث کی ہے اور اسے منکر قرار دیا ہے۔ اسی سلسلے میں انھوں نے مجموع الفتاویٰ (۱۱؍۱۹۷) سے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا کلام نقل کیا ہے، وہ فرماتے ہیں: ”اس کی کوئی اصل نہیں اور نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال کا علم رکھنے والوں میں سے کسی نے اسے روایت کیا ہے۔ کفار سے جہاد سب سے زیادہ عظمت والے اعمال میں سے ہے، بلکہ انسان اپنی خوشی سے جو عمل کرتا ہے ان سب سے افضل ہے۔“ پھر کچھ آیات و احادیث نقل فرمائیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ جہاد افضل اعمال میں سے ہے۔
➌ هُوَ اجْتَبٰىكُمْ: اس خطاب کے اولین مخاطب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہیں، یعنی اللہ تعالیٰ نے تمھیں اپنا دین قبول کرنے، اسے پھیلانے اور اسے نہ ماننے والوں کے ساتھ جہاد کے لیے چن لیا ہے۔ اور یہ حقیقت سب جانتے ہیں کہ یہ صحابہ ہی تھے جنھوں نے دعوت و جہاد کے ساتھ چند سالوںمیں مشرق ومغرب تک اسلام پہنچا دیا۔ پھر ان کے بعد جو لوگ بھی ان کے نقش قدم پر چل کر دعوت و جہاد کے ساتھ کفر کو مغلوب اور اسلام کو غالب کرتے رہے وہ بھی اس کے مخاطب ہیں۔ یہ آیت صحابہ اور ان کے پیروکاروں کی فضیلت کی زبردست دلیل ہے۔ وہ لوگ بہت بڑی غلطی پر ہیں جو اللہ کے ان چنے ہوئے پیاروں سے بغض رکھتے ہیں اور ان پر زبان طعن دراز کرتے ہیں۔ یا پوری امت اس کی مخاطب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمھیں تمام امتوں میں سے چن لیا ہے۔ دونوں صورتوں میں اس آیت کا اور ” كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ “ کا مفہوم ایک ہی ہے۔ دیکھیے سورۂ آل عمران (۱۱۰) کی تفسیر۔
➍ وَ مَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّيْنِ مِنْ حَرَجٍ: امت کے چنیدہ ہونے کے ساتھ ہی اس کی افضلیت کی وجہ بھی بیان فرما دی کہ اس دین میں کوئی تنگی نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ إِنَّ الدِّيْنَ يُسْرٌ ][ بخاري، الإیمان، باب الدین یسر: ۳۹، عن أبي ھریرۃ رضی اللہ عنہ ]”یہ دین آسان ہے۔“ اور فرمایا: [ أَحَبُّ الدِّيْنِ إِلَی اللّٰهِ الْحَنِيْفِيَّةُ السَّمْحَةُ ][ بخاري، قبل ح: ۳۹ ]”تمام دینوں میں سے اللہ کو سب سے پسند ابراہیم حنیف کی ملت ہے جو سادہ اور آسان ہے۔“ بخاری رحمہ اللہ نے پہلی حدیث سند کے ساتھ اور دوسری معلق بیان فرمائی ہے اور اللہ تعالیٰ نے بھی فرمایا: «يُرِيْدُ اللّٰهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَ لَا يُرِيْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ» [ البقرۃ: ۱۸۵ ]”اللہ تمھارے ساتھ آسانی کا ارادہ رکھتا ہے اور تمھارے ساتھ تنگی کا ارادہ نہیں رکھتا۔“” وَ جَاهِدُوْا فِي اللّٰهِ حَقَّ جِهَادِهٖ “ سے اس جملے کا تعلق یہ ہے کہ اگر تم میں جہاد کی طاقت نہیں تو تمھیں رخصت ہے، فرمایا: «لَيْسَ عَلَى الْاَعْمٰى حَرَجٌ وَّ لَا عَلَى الْاَعْرَجِ حَرَجٌ وَّ لَا عَلَى الْمَرِيْضِ حَرَجٌ» [ الفتح: ۱۷ ]”نہیں ہے اندھے پر کوئی تنگی اور نہ لنگڑے پر کوئی تنگی اور نہ مریض پر کوئی تنگی۔“ اسی طرح عورتوں بوڑھوں، کمزوروں اور نادانوں کو جہاد معاف کر دیا ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ توبہ (۹۱ تا ۹۳)۔
دین میں کسی مشکل کے نہ ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ انسان جو جی میں آئے کرتا پھرے، بلکہ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دین کے احکام ایسے رکھے ہیں جو انسانی طاقت کے اندر ہیں، اسی لیے فرمایا: «لَا يُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا» [ البقرۃ: ۲۸۶ ]”اللہ کسی جان کو تکلیف نہیں دیتا مگر اس کی گنجائش کے مطابق۔“ پھر کمزوری یا بڑھاپے یا کسی اور عذر کی بنا پر انجام نہ دے سکنے کی صورت میں رخصت اور تخفیف کا قاعدہ مقرر کیا ہے (جیسے سفر میں قصر نماز، سفر اور بیماری میں روزہ افطار کرنے کی اجازت، پانی نہ ملنے کی صورت میں تیمم کی اجازت، ساری زمین میں جہاں وقت ہو جائے نماز کی اجازت وغیرہ) پھر گناہوں کے ارتکاب کی صورت میں توبہ کا دروازہ کھلا رکھا جسے پچھلی امتوں کے فقیہوں نے اپنی موشگافیوں سے ختم کر ڈالا تھا۔ اسی طرح پہلی امتوں کے بعض سخت احکام منسوخ کر دیے اور وہ رسوم و رواج بھی ختم کر دیے جو لوگوں نے خود یا ان کے فقیہوں نے ان پر لازم کر رکھے تھے۔ دیکھیے سورۂ اعراف (۱۵۷)۔
➎ مِلَّةَ اَبِيْكُمْ اِبْرٰهِيْمَ: ”أَيْ مُتَّبِعِيْنَ مِلَّةَ أَبِيْكُمْ إِبْرَاهِيْمَ“ یعنی اس حال میں کہ تم اپنے باپ ابراہیم کی پیروی کرنے والے ہو۔ ” اَبِيْكُمْ “ سے اگر مخاطب عرب سمجھے جائیں تو ابراہیم علیہ السلام کو ان کا باپ اس لیے فرمایا کہ وہ اکثر ابراہیم علیہ السلام کی اولاد سے تھے اور اگر پوری امت مسلمہ مخاطب ہو تو ابراہیم علیہ السلام پوری امتِ مسلمہ کے اس لیے باپ ہیں کہ وہ اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے باپ ہیں۔
➏ هُوَ سَمّٰىكُمُ الْمُسْلِمِيْنَ مِنْ قَبْلُ وَ فِيْ هٰذَا: ”أَيْ مِنْ قَبْلِ الْقُرْآنِ وَ فِيْ هٰذَا الْقُرْآنِ“ عام طور اس کی تفسیر یہ کی جاتی ہے کہ اس نے یعنی ابراہیم علیہ السلام نے قرآن سے پہلے اور اس قرآن میں تمھارا نام مسلمین رکھا۔ مگر امام طبری نے دو صحیح سندوں کے ساتھ نقل فرمایا ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنھما نے ” هُوَ سَمّٰىكُمْ “ کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے (تمھارا نام مسلم رکھا ہے)۔ یعنی یہ نام ابراہیم علیہ السلام نے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے رکھا ہے۔ابن کثیر نے فرمایا کہ مجاہد، قتادہ، ضحاک، سدی اور مقاتل بن حیان نے بھی یہی فرمایا۔ اس کے بعد ابن کثیر نے طبری سے عبد الرحمان بن زید بن اسلم کا قول نقل فرمایا کہ ابراہیم علیہ السلام نے تمھارا نام مسلمین رکھا اور اس پر ابن جریر کا تبصرہ نقل فرمایا کہ یہ کسی طرح صحیح نہیں، کیونکہ معلوم ہے کہ ابراہیم علیہ السلام نے قرآن میں اس امت کا نام مسلمین نہیں رکھا، جب کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس نے تمھارا نام اس سے پہلے اور اس میں مسلمین رکھا۔ مجاہد نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمھارا نام مسلمین رکھا، اس سے پہلے گزشتہ کتابوںمیں اور اس ذکر (قرآن) میں بھی۔ مجاہد کے علاوہ بھی کئی مفسرین نے یہی فرمایا ہے۔ ابن کثیر کہتے ہیں کہ یہی بات درست ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے پہلے فرمایا: «هُوَ اجْتَبٰىكُمْ» یعنی اس (اللہ) نے تمھیں چنا۔ پھر انھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین کی ترغیب یہ کہہ کر دلائی کہ یہ تمھارے باپ ابراہیم کی ملت ہے، پھر اس امت پر احسان جتلایا کہ اس نے پہلی تمام کتابوں میں اور اس قرآن میں تمھارا نام مسلمین رکھا ہے۔ آئندہ فائدے میں ایک حدیث آ رہی ہے جس میں صراحت ہے کہ ہمارا نام اللہ تعالیٰ نے مسلمین، مومنین اور عباد اللہ رکھا ہے۔ قرآن میں مسلمین نام کے لیے دیکھیے سورۂ آل عمران (۶۴) اور سورۂ زمر (۱۲)۔
➐ کچھ سال پہلے ایک صاحب نے کہا کہ جو شخص ”مسلم“ کے سوا کوئی اور نام اختیار کرے وہ کافر ہے، خارج از اسلام ہے۔ اگرچہ ان کے فوت ہونے کے بعد وہ زور نہیں رہا مگر اب بھی ان کے کئی متاثرین کافر گری کا یہ شغل جاری رکھے ہوئے ہیں، اگرچہ وہ خود بھی کئی گروہوں میں بٹ کر ایک دوسرے پر فتوے لگا رہے ہیں۔ حالانکہ کوئی مسلم اگر اسلام کی کسی صفت کو بطور نام استعمال کرلے تو وہ ملت اسلام سے کیسے خارج ہو گیا؟ خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا: «اِنَّ الْمُسْلِمِيْنَ وَ الْمُسْلِمٰتِ وَ الْمُؤْمِنِيْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ وَ الْقٰنِتِيْنَ وَ الْقٰنِتٰتِ وَ الصّٰدِقِيْنَ وَ الصّٰدِقٰتِ وَ الصّٰبِرِيْنَ وَ الصّٰبِرٰتِ وَ الْخٰشِعِيْنَ وَ الْخٰشِعٰتِ وَ الْمُتَصَدِّقِيْنَ وَ الْمُتَصَدِّقٰتِ وَ الصَّآىِٕمِيْنَ وَ الصّٰٓىِٕمٰتِ وَ الْحٰفِظِيْنَ فُرُوْجَهُمْ وَ الْحٰفِظٰتِ وَ الذّٰكِرِيْنَ اللّٰهَ كَثِيْرًا وَّ الذّٰكِرٰتِ اَعَدَّ اللّٰهُ لَهُمْ مَّغْفِرَةً وَّ اَجْرًا عَظِيْمًا» [الأحزاب: ۳۵ ]”بے شک مسلم مرد اور مسلم عورتیں اور مومن مرد اورمومن عورتیں اور فرماں بردار مرد اور فرماں بردار عورتیں اور سچے مرد اور سچی عورتیں اور صبر کرنے والے مرد اور صبر کرنے والی عورتیں اور عاجزی کرنے والے مرد اور عاجزی کرنے والی عورتیں اور صدقہ دینے والے مرد اور صدقہ دینے والی عورتیں اور روزہ رکھنے والے مرد اور روزہ رکھنے والی عورتیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے مرداور حفاظت کرنے والی عورتیں اور اللہ کا بہت ذکر کرنے والے مرد اور ذکر کرنے والی عورتیں، ان کے لیے اللہ نے بڑی بخشش اور بہت بڑا اجر تیار کر رکھا ہے۔“ اور حارث اشعری رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ مَنِ ادَّعٰی دَعْوَی الْجَاهِلِيَّةِ فَهُوَ جُثَا جَهَنَّمَ فَقَالَ رَجُلٌ يَا رَسُوْلَ اللّٰهِ! وَإِنْ صَلّٰی وَصَامَ فَقَالَ وَإِنْ صَلّٰی وَصَامَ فَادْعُوْا بِدَعْوَی اللّٰهِ الَّذِيْ سَمَّاكُمُ الْمُسْلِمِيْنَ الْمُؤْمِنِيْنَ عِبَادَ اللّٰهِ ][ ترمذي الأدب، باب ماجاء في مثل الصلاۃ…: ۲۸۶۳۔ مسند أحمد: 344/5، ح: ۲۲۹۷۶ ]”جو شخص جاہلیت کی دعوت کی آواز دے وہ جہنم کی ڈھیریوں میں سے ہے۔“ ایک آدمی نے کہا: ”یارسول اللہ! خواہ وہ نماز پڑھے اور روزے رکھے؟“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” خواہ وہ نماز پڑھے اور روزے رکھے۔ سو تم اللہ کی دعوت کی طرف بلاؤ جس نے تمھارا نام ”مسلمین“، ”مومنین“ اور ”عباد اللہ“ رکھا ہے۔“ اس حدیث سے بھی معلوم ہوا کہ مسلمین کے علاوہ صفاتی نام (مثلاً مومنین، عباد اللہ) لینے میں کوئی حرج نہیں۔
➑ لِيَكُوْنَ الرَّسُوْلُ شَهِيْدًا: اس کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورۂ بقرہ (۱۴۳) یہاں رسول کا ذکر پہلے ہے اور سورۂ بقرہ میں امت کا پہلے ہے۔ کیونکہ وہاں امت کی تعریف ہو رہی ہے جبکہ یہاں ملت ابراہیم کی پیروی کی تاکید ہے، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے ہیں، اس لیے یہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر پہلے ہے۔ (ابن عاشور)
➒ فَاَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ: یہ ” هُوَ اجْتَبٰىكُمْ “ اور ” هُوَ سَمّٰىكُمُ الْمُسْلِمِيْنَ “ پر عطف ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے تم پر اتنے انعام کیے ہیں تو تم اس کا شکر ادا کرنے کے لیے ہمیشہ نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو۔ ان دو اعمال کی تاکید اس لیے فرمائی کہ کسی اسلام لانے والے کے ایمان کا ثبوت اقرار کے بعد ان دونوں عملوں سے ملتا ہے۔ دیکھیے سورۂ توبہ (۵، ۱۱)۔
➓ وَ اعْتَصِمُوْا بِاللّٰهِ: اور اللہ تعالیٰ کو مضبوطی سے تھام لو، یعنی اس کے تمام احکام کو مضبوطی سے تھام لو، اسی طرح ہر مشکل اور مصیبت بلکہ اپنے ہر کام میں اسی کے سہارے کو مضبوطی سے تھامے رکھو اور کسی غیر کی طرف نظر مت اٹھاؤ۔
⓫ هُوَ مَوْلٰىكُمْ: یہ اللہ کو مضبوطی سے تھامنے کی وجہ بیان ہوئی ہے کہ تمھارا مالک اور تمھارے تمام کاموں کا ذمہ اٹھانے والا وہی ہے۔
⓬ فَنِعْمَ الْمَوْلٰى وَ نِعْمَ النَّصِيْرُ: وہ اچھا مالک اور اچھا مددگار ہے، کیونکہ وہ کسی کا ذمہ اٹھا لے تو اسے ہر فکر سے کافی ہو جاتا ہے اور جب کسی کی مدد کر دے تو اسے اس کے تمام دشمنوں پر غالب کر دیتا ہے۔ دعائے قنوت میں ہے: [ إِنَّهُ لَا يَذِلُّ مَنْ وَّالَيْتَ وَلَا يَعِزُّ مَنْ عَادَيْتَ ][ أبوداوٗد، الوتر، باب القنوت في الوتر: ۱۴۲۵ ]”حقیقت یہ ہے کہ جس کا تو دوست بن جائے وہ کبھی ذلیل نہیں ہوتا اور جس کا تو دشمن ہو جائے وہ کبھی عزت نہیں پاتا۔“