(آیت 71) ➊ وَ يَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ …: یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنی کسی کتاب میں نہیں فرمایا کہ میں نے فلاں فلاں ہستی کو فلاں فلاں اختیارات دے رکھے ہیں، لہٰذا ان کاموں کے لیے اپنی حاجات ان سے طلب کرو اور نہ اس بات کی کوئی علمی یا عقلی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کو بھی کائنات میں اپنی مرضی چلانے کا اختیار ہے کہ اس کی عبادت کی جائے اور اس سے مرادیں مانگی جائیں۔ دیکھیے سورۂ احقاف (۴، ۵) اور فاطر (۴۰) جب شرک کی نہ کوئی عقلی دلیل ہے اور نہ نقلی، تو معلوم ہوا کہ لوگوں نے جو غیر اللہ کے آستانے بنا رکھے ہیں، یا زندہ یا فوت شدہ بزرگوں کو خدائی اختیارات کا مالک سمجھ کر ان کی نذریں نیازیں چڑھا رہے ہیں اور ان کی قبروں کا یا ان کے بتوں کا طواف یا ان کے سامنے قیام، رکوع یا سجود کر رہے ہیں، یا ان کے مجاور بن کر ان کا اعتکاف کر رہے ہیں، یا انھیں حاجت روا اور مشکل کشا سمجھ کر ان سے فریادیں کر رہے ہیں تو ان کے پاس اوہام پرستی اور باپ دادا کی اندھی تقلید کے سوا کچھ نہیں، جس کا رد قرآن مجید میں کئی مقامات پر کیا گیا ہے۔ دیکھیے سورۂ بقرہ (۱۷۰) اور مائدہ (۱۰۴)۔
➋ وَ مَا لِلظّٰلِمِيْنَ مِنْ نَّصِيْرٍ: عبارت کی ترتیب کے مطابق یہ الفاظ کافی تھے کہ ”وَمَا لَهُمْ مِنْ نَّصِيْرٍ“ یعنی ان کا کوئی مددگار نہیں، اس کے بجائے فرمایا ” وَ مَا لِلظّٰلِمِيْنَ مِنْ نَّصِيْرٍ “ یعنی ظالموں کا کوئی مددگار نہیں، یعنی اللہ کی نصرت سے ان کی محرومی کا باعث ان کا ظلم (شرک) ہے کہ اللہ کا حق بندوں کو دے دیا۔ یہ احمق سمجھ رہے ہیں کہ ان کے خود ساختہ معبود، حاجت روا اور مشکل کشا دنیا اور آخرت میں ان کی مدد کریں گے، حالانکہ ان کی مدد کوئی نہیں کرے گا، کیونکہ ان ظالموں نے اللہ کے لیے شریک بنا کر اسے ناراض کر لیا، سو وہ تو ان کی مدد کو آئے گا ہی نہیں اور دوسرے معبودوں، حاجت رواؤں اور مشکل کشاؤں میں طاقت ہی نہیں کہ ان کی مدد کر سکیں۔