(آیت 65) ➊ اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ سَخَّرَ لَكُمْ مَّا فِي الْاَرْضِ: یہ تیسری دلیل ہے۔ زمین کی ہر چیز کو انسان کے لیے مسخر کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اسے اس طرح بنایا ہے کہ آدمی اس سے فائدہ اٹھا سکے۔ سورج اور چاند اس رفتار سے چل رہے ہیں جو انسان کے لیے مفید ہے۔ ہوا، پانی، آگ، بجلی، ایٹم، غرض کتنی ہی منہ زور قوتیں ہیں جن سے انسان فائدہ اٹھا رہا ہے۔ پالتو جانور ہیں تو ان پر سواری کرتا ہے، ان کا دودھ پیتا، گوشت کھاتا اور کئی ضروریات پوری کرتا ہے، غرض وہ ہر طرح سے انسان کے تابع کر دیے گئے ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ اونٹ، گائے، بھینس اور گھوڑے کو انسان کے تابع نہ کرتا تو انسان کبھی انھیں پالتو نہ بنا سکتا، فرمایا: «وَ ذَلَّلْنٰهَا لَهُمْ فَمِنْهَا رَكُوْبُهُمْ وَ مِنْهَا يَاْكُلُوْنَ»[ یٰسٓ: ۷۲ ]”اور ہم نے انھیں ان کے تابع کر دیا تو ان میں سے کچھ ان کی سواری ہیں اور ان میں سے بعض کو وہ کھاتے ہیں۔“ رہے جنگلی جانور، تو ان کا شکار کرکے انھیں زندہ یا مردہ اپنے قابو میں لے آتا ہے۔
➋ وَ الْفُلْكَ تَجْرِيْ فِي الْبَحْرِ بِاَمْرِهٖ: یہ چوتھی دلیل ہے، اگرچہ سمندر میں چلنے والے جہاز بھی زمین کی ان چیزوں میں شامل ہیں جنھیں اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے مسخر کر رکھا ہے، مگر ان کا معاملہ دوسری چیزوں سے زیادہ عجیب ہے کہ پانی، جو ہر وزن والی چیز کو اپنے اندر غرق کر لیتا ہے، اللہ تعالیٰ نے اسے اس طرح انسان کے فائدے کے لیے مسخر کر دیا ہے کہ وہ اللہ کی مقرر کردہ ایک خاص وضع پر بنائے ہوئے ہزاروں ٹن کے پہاڑوں جیسے وزنی اور لمبے چوڑے اور اونچے بحری جہازوں کو اپنے سینے پر اٹھائے رکھتا ہے، غرق نہیں کرتا۔ یہ جہاز انسان کی ضرورت کی ہزاروں اشیاء اٹھا کر سیکڑوں ہزاروں میل کا سفر کرتے ہیں اور ان میں بیٹھے ہوئے لوگ اس طرح آرام سے بیٹھے ہوتے ہیں گویا وہ اپنے گھر میں آرام کر رہے ہیں۔ ” بِاَمْرِهٖ “ یعنی یہ سب کچھ اس کے تکوینی حکم سے ممکن ہوا کہ اس نے سمندر کو اس طرح بنایا ہے کہ جہاز اس پر چل سکیں۔ اگر اس کا حکم نہ ہوتا تو سمندر انھیں ایک لمحے میں ڈبو کر اپنی آغوش میں لے لیتا، یا انھیں اپنے سینے پر چلنے نہ دیتا اور وہ ایک جگہ کھڑے کھڑے ہی تباہ ہو جاتے۔
➌ وَ يُمْسِكُ السَّمَآءَ اَنْ تَقَعَ عَلَى الْاَرْضِ: یہ پانچویں دلیل ہے۔ آسمان کو زمین پر گرنے سے روک کر رکھنا سمندر میں جہازوں کے چلنے سے بھی عجیب ہے کہ جہازوں کے نیچے کم از کم پانی تو ہے جسے اللہ نے انھیں غرق کرنے سے منع کر دیا ہے، بلکہ اسے جہازوں کا ٹھکانا اور سہارا بنا دیا ہے مگر آسمان کو اتنی بلندی پر نیچے کسی بھی چیز کے سہارے کے بغیر تھام کر رکھنا اس بے انتہا قوتوں والے مالک ہی کا کام ہے۔ ایسے مالک کے ہوتے ہوئے بے بس مخلوق کی بندگی کرنے سے بڑی بے انصافی کیا ہو سکتی ہے؟
➍ اِلَّا بِاِذْنِهٖ: یہ اس لیے فرمایا کہ جب اس کا اذن ہو گا تو آسمان پھٹ جائے گا اور اسے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے سے کوئی چیز نہیں روک سکے گی۔
➎ اِنَّ اللّٰهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ: ”رَؤفٌ“ اور ” رَحِيْمٌ “ دونوں مبالغے کے صیغے ہیں۔ صفت ”رَأْفَةٌ“ میں نقصان سے بچانے کا اور صفت ”رَحْمَةٌ“ میں نفع پہنچانے کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ یہ دونوں لفظ ایک دوسرے کی جگہ بھی آ جاتے ہیں۔ اکٹھے آنے میں نقصان سے بچانے اور نفع پہنچانے کے دونوں مفہوم جمع ہو گئے۔ (ابن عاشور)”رَءُوْفٌ“ اور ” رَحِيْمٌ “ بجائے خود مبالغے کے صیغے ہیں، ان پر مزید تنوینِ تعظیم آنے کے بعد اس کی رافت و رحمت کا کیا اندازہ ہو سکتا ہے؟
➏ اِنَّ اللّٰهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ: یعنی اللہ تعالیٰ نے تم پر جو یہ احسانات فرمائے ہیں اور تمھاری زندگی کے لیے جو یہ اسباب فراہم کیے ہیں یہ اس وجہ سے نہیں کہ وہ تمھارا حاجت مند ہے، بلکہ یہ سراسر اس کی شفقت و مہربانی کا کرشمہ ہے، تمھارا اس پر کوئی زور نہ تھا کہ وہ چاہتا یا نہ چاہتا تم اس سے یہ اسباب حاصل کر لیتے۔