(آیت 55)وَ لَا يَزَالُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا فِيْ مِرْيَةٍ مِّنْهُ …: یعنی کفار اس قرآن کے متعلق ہمیشہ کسی نہ کسی شک میں مبتلا رہیں گے، خواہ وہ شیطان کا پیدا کردہ ہو یا خود ان کے نفس کا اور اس وقت تک ایمان نہیں لائیں گے جب تک ان کے پاس قیامت کی گھڑی نہ آ جائے، یا یوم عقیم (بانجھ دن) کا عذاب نہ آ جائے۔ بانجھ دن سے مراد قیامت کا دن ہے، اسے عقیم اس لیے کہا گیا ہے کہ اس کے بعد کوئی دن نہیں ہو گا، جس طرح عقیم اسے کہا جاتا ہے جس کی اولاد نہ ہو، یا اس لیے کہ کفار کے لیے اس دن میں کوئی خیر نہیں ہو گی، جس طرح آندھی کو جو عذاب کے طور پر آئی ” الرِّيْحَ الْعَقِيْمَ “(ہر خیر سے خالی ہوا) کہا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: «وَ فِيْ عَادٍ اِذْ اَرْسَلْنَا عَلَيْهِمُ الرِّيْحَ الْعَقِيْمَ»[ الذاریات: ۴۱ ]”اور عاد میں (بھی نشانی ہے) جب ہم نے ان پر بانجھ (خیر و برکت سے خالی) ہوا بھیجی۔“ اس یوم عقیم سے کیا مراد ہے؟ بعض مفسرین نے اس سے مراد یومِ بدر لیا ہے کہ اس میں کفار کے لیے کوئی خیر و برکت نہیں تھی۔ مگر یہ اس لیے درست نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ کافر اس یوم عقیم کا عذاب آنے تک شک میں رہیں گے، گویا اس دن کے آنے کے بعد کافروں کو کوئی شک نہیں رہے گا اور ظاہر ہے کہ بدر کے بعد بھی کافر موجود ہیں اور ان کے شکوک و شبہات بھی موجود ہیں۔ علاوہ ازیں اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے خود اس دن کی تعیین فرما دی ہے، فرمایا: «اَلْمُلْكُ يَوْمَىِٕذٍ لِّلّٰهِ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ» [ الحج: ۵۶ ]”تمام بادشاہی اس دن اللہ کی ہو گی، وہ ان کے درمیان فیصلہ کرے گا۔“ معلوم ہوا کہ اس یومِ عقیم سے مراد قیامت کا دن ہے اور مزید فرمایا: «وَ مَاۤ اَدْرٰىكَ مَا يَوْمُ الدِّيْنِ (17) ثُمَّ مَاۤ اَدْرٰىكَ مَا يَوْمُ الدِّيْنِ (18) يَوْمَ لَا تَمْلِكُ نَفْسٌ لِّنَفْسٍ شَيْـًٔا وَ الْاَمْرُ يَوْمَىِٕذٍ لِّلّٰهِ» [ الانفطار: ۱۷ تا ۱۹ ]”اور تجھے کس چیز نے معلوم کروایا کہ جزا کا دن کیا ہے؟ پھر تجھے کس چیز نے معلوم کروایا کہ جزا کا دن کیا ہے؟ جس دن کوئی جان کسی جان کے لیے کسی چیز کا اختیار نہ رکھے گی اور اس دن سب حکم اللہ کا ہو گا۔“ اس پر یہ سوال ہے کہ اس سے تکرار لازم آتا ہے، کیونکہ ” السَّاعَةُ “ سے مراد بھی قیامت ہے۔ جواب یہ ہے کہ ” السَّاعَةُ “ میں قیامت کا ذکر ہے اور ” عَذَابُ يَوْمٍ عَقِيْمٍ “ میں قیامت کے دن کے عذاب کا ذکر ہے۔ خلاصہ آیت کا یہ ہے کہ کفار اس وقت سے پہلے ایمان نہیں لائیں گے جب ایمان لانے کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔