(آیت 54،53) ➊ لِيَجْعَلَ مَا يُلْقِي الشَّيْطٰنُ فِتْنَةً …: ” شِقَاقٍ“ باب مفاعلہ کا مصدر ہے، جیسے ”قِتَالٌ“ ہے، مراد آمنے سامنے مقابلہ ہے، جس میں ایک فریق ایک شق میں ہوتا ہے اور دوسرا فریق دوسری شق میں۔ اس آیت میں شیطان کو انبیاء کی دعوت اور آیاتِ الٰہی میں شکوک و شبہات ڈالنے اور لوگوں کو گمراہ کرنے کی فرصت دینے کی حکمت بیان فرمائی ہے کہ شیاطین کو جو اس طرح کھل کھیلنے کا موقع دیا جاتا ہے تو اس سے مقصود ابتلا و آزمائش کا موقع فراہم کرنا ہوتا ہے، تاکہ اس کے نتیجے میں اہل باطل اپنا من بھاتا کھا جا پا کر اہل باطل کے علمبرداروں کے ساتھ ہو جائیں اور اہل حق باطل والوں کے تمام شور و غوغا کے باوجود راہ حق پر مزید پختہ ہو جائیں، کیونکہ حق کے مقابلے میں جتنا زیادہ جھگڑا کیا جائے اتنا ہی اس کے دلائل مزید نکھرتے اور واضح ہوتے ہیں اور جن لوگوں کو علم کی روشنی ملی ہوتی ہے ان کو یقین ہو جاتا ہے کہ آپ کو رب کی طرف سے ملنے والا علم کتاب بالکل حق ہے، پھر ان کا یہ یقین ان کے ایمان کو پختہ کرنے اور اس میں اضافے کا باعث بنتا ہے، جس کے نتیجے میں ان کے دل اپنے رب کے لیے عاجزی اختیار کرتے ہیں اور پورے اطمینان کے ساتھ اس کے سامنے جھک جاتے ہیں۔
➋ ” لِلَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ “ سے مراد منافقین ہیں اور ” وَ الْقَاسِيَةِ قُلُوْبُهُمْ “ سے مراد پکے کافر ہیں کہ جن کے دل کفر و عناد کی وجہ سے سخت ہو چکے ہیں۔
➌ ” لِيَجْعَلَ “ کی ضمیر، ” فَيَنْسَخُ اللّٰهُ “ اور ” ثُمَّ يُحْكِمُ اللّٰهُ “ میں مذکور لفظ ” اللّٰهُ “ کی طرف جا رہی ہے۔ شیطان کی دخل اندازی اور شکوک و شبہات کو کفار و منافقین کے لیے فتنے کا باعث بنانے کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کر دیا ہے کہ وہ شیطان کے اس عمل کو کفار و منافقین کے لیے فتنہ بناتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے اللہ تعالیٰ کی حکمت و مشیت کے مطابق ہو رہا ہے۔ کوئی مومن ہو یا کافر یا منافق ہر ایک کا خالق اللہ تعالیٰ ہے اور ان کے ہر فعل کا خالق بھی وہی ہے، اس لیے فتنہ بنانے کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کر دی ہے۔ البتہ کفار و منافقین کو فتنے میں مبتلا کرنے کا باعث ان کے دلوں کے مرض نفاق کو اور ان کے دلوں کی سختی اور عناد کو قرار دیا ہے، جیسا کہ فرمایا: « وَ مَا يُضِلُّ بِهٖۤ اِلَّا الْفٰسِقِيْنَ »[ البقرۃ: ۲۶ ]”اور وہ اس کے ساتھ فاسقوں کے سوا کسی کو گمراہ نہیں کرتا۔“
➍ وَ اِنَّ اللّٰهَ لَهَادِ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْۤا اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ: یعنی شیطان اور اس کے چیلے جتنے شکوک و شبہات پیدا کر لیں اور جتنے اعتراض کر لیں اللہ تعالیٰ ایمان والوں کی سیدھے راستے کی طرف ضرور ہی رہنمائی کر دیتا ہے، جس سے انھیں فوراً معلوم ہو جاتا ہے کہ فلاں بات فی الواقع وحی الٰہی ہے، وہ اس پر قائم ہو جاتے ہیں اور فلاں بات شیطان کا وسوسہ یا دھوکا ہے، سو وہ اس سے بچ جاتے ہیں۔ اس طرح انھیں دنیا و آخرت دونوں کی سعادت حاصل ہو جاتی ہے۔