(آیت 47) ➊ وَ يَسْتَعْجِلُوْنَكَ بِالْعَذَابِ: مشرکین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جلد از جلد عذاب لانے کا مطالبہ کرتے رہتے تھے۔ اس مطالبے سے ان کا مقصد عذاب آنے کا انکار اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلانا، آپ کا مذاق اڑانا اور آپ کو لاجواب کرنا تھا۔ قرآن مجید نے ان کے اس مطالبے کا کئی جگہ ذکر فرمایا ہے، چنانچہ فرمایا: «وَ يَقُوْلُوْنَ مَتٰى هٰذَا الْوَعْدُ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ»[ الأنبیاء: ۳۸ ]”اور وہ کہتے ہیں یہ وعدہ کب (پورا) ہوگا، اگر تم سچے ہو۔“ اور فرمایا: «وَ يَسْتَعْجِلُوْنَكَ بِالْعَذَابِ وَ لَوْ لَاۤ اَجَلٌ مُّسَمًّى لَّجَآءَهُمُ الْعَذَابُ»[ العنکبوت: ۵۳ ]”اور وہ تجھ سے جلدی عذاب کا مطالبہ کرتے ہیں اور اگر ایک مقرر وقت نہ ہوتا تو ان پر عذاب ضرور آ جاتا۔“ بلکہ وہ اللہ تعالیٰ سے براہ ِراست عذاب کی دعا سے بھی دریغ نہیں کرتے تھے: «وَ قَالُوْا رَبَّنَا عَجِّلْ لَّنَا قِطَّنَا قَبْلَ يَوْمِ الْحِسَابِ»[ صٓ: ۱۶ ]”اور انھوں نے کہا اے ہمارے رب!ہمیں ہمارا حصہ یوم حساب سے پہلے جلد ی دے دے۔“ اور فرمایا: «وَ اِذْ قَالُوا اللّٰهُمَّ اِنْ كَانَ هٰذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِكَ فَاَمْطِرْ عَلَيْنَا حِجَارَةً مِّنَ السَّمَآءِ اَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ اَلِيْمٍ» [ الأنفال: ۳۲ ]”اور جب انھوں نے کہا اے اللہ! اگر صرف یہی تیری طرف سے حق ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا، یا ہم پر کوئی دردناک عذاب لے آ۔“
➋ وَ لَنْ يُّخْلِفَ اللّٰهُ وَعْدَهٗ: مشرکین جس یقین کے ساتھ عذاب نازل ہونے کو جھٹلاتے تھے اسی تاکید کے ساتھ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کے خلاف ہر گز نہیں کرے گا، جو اس نے فرمایا ہے ہو کر رہے گا، مگر اس وقت پر جو اس نے مقرر فرمایا ہے۔
➌ وَ اِنَّ يَوْمًا عِنْدَ رَبِّكَ …: یعنی رب تعالیٰ تمھاری طرح تنگ ظرف اور جلد باز نہیں بلکہ بے حد حلیم اور وسعت والا ہے۔ اس کی دی ہوئی تھوڑی سی مہلت بھی بہت زیادہ ہوتی ہے، تمھارا ایک ہزار سال اس کے نزدیک صرف ایک دن ہے، وہ اتنا حلیم ہے کہ آدھے دن کی مہلت دے تو وہ بھی پانچ سو برس ہو گی اور ایک گھنٹہ کی مہلت دے تو چالیس برس سے زیادہ ہو گی۔ اس کے حلم کی وجہ یہ ہے کہ وہ انتقام پر قادر ہے، کوئی چیز اس کی گرفت سے نکل نہیں سکتی، خواہ وہ کتنی مہلت دے یا رسی دراز کرے۔