(آیت 46) ➊ اَفَلَمْ يَسِيْرُوْا فِي الْاَرْضِ …: عرب کے لوگ تجارت کے لیے دور دراز سفر کرتے تھے، چنانچہ وہ گرمیوں میں شام کی طرف اور سردیوں میں یمن کی طرف جاتے تھے۔ سورۂ قریش میں اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنے اس انعام کا خاص طور پر ذکر فرمایا ہے۔ یمن قومِ عاد کا مسکن تھا اور شام کے سفر میں مدائن صالح اور قوم لوط کی تباہ شدہ بستیوں پر سے ان کا گزر ہوتا تھا، قوم لوط کے متعلق فرمایا: «وَ اِنَّكُمْ لَتَمُرُّوْنَ عَلَيْهِمْ مُّصْبِحِيْنَ (137) وَ بِالَّيْلِ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ» [ الصافات: ۱۳۷، ۱۳۸ ]”اور بلاشبہ تم یقینا صبح جاتے ہوئے ان پر سے گزرتے ہو اور رات کو بھی۔ تو کیا تم سمجھتے نہیں؟“ اور قومِ لوط اور قومِ شعیب (اصحاب الایکہ) کے متعلق فرمایا: « وَ اِنَّهُمَا لَبِاِمَامٍ مُّبِيْنٍ »[ الحجر: ۷۹ ]”اور بے شک وہ دونوں (بستیاں) یقینا ظاہر راستے پر موجود ہیں۔“ مدین کا علاقہ بھی حجاز کے شمال مغرب میں واقع تھا۔ سفر میں آدمی کو مالی فوائد کے علاوہ علمی فوائد اور بے شمار تجربات اور عبرتیں حاصل ہوتی ہیں اور سفر کا سب سے بڑا فائدہ یہی ہے۔ ابوالعلاء المعری کہتا ہے:
وَ قِيْلَ أَفَادَ بِالْأَسْفَارِ مَالاً
فَقُلْنَا هَلْ أَفَادَ بِهَا فُؤَادًا
”لوگوں نے بتایا کہ اس نے مختلف سفروں میں بہت سا مال حاصل کیا ہے، تو ہم نے کہا، کیا اس نے ان سے کوئی دل بھی حاصل کیا ہے؟“ یعنی اسے سفروں سے کچھ عقل و دانش اور نصیحت و عبرت بھی حاصل ہوئی ہے؟ اس آیت میں ان لوگوں سے جنھوں نے یہ سفر کیے تھے، کہا جا رہا ہے کہ کیا یہ لوگ زمین میں چلے پھرے نہیں کہ مختلف قوموں کے آثار قدیمہ دیکھ کر ان کے دل عقل کرتے اور نصیحت و عبرت حاصل کرتے، یا لوگوں سے سن کر ہی عبرت حاصل کرتے؟ مقصد یہ ہے کہ سفر کا فائدہ تو سوچنا سمجھنا اور عبرت حاصل کرنا ہے اور بے شک تم نے ان سفروں میں آنکھوں سے بہت کچھ دیکھا اور کانوں سے بہت کچھ سنا مگر جب اس سے عبرت اور عقل حاصل نہیں کی تو سمجھو کہ تم آنکھیں رکھنے کے باوجود اندھے اور کان رکھنے کے باوجود بہرے ہو، فرمایا: «وَ مَثَلُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا كَمَثَلِ الَّذِيْ يَنْعِقُ بِمَا لَا يَسْمَعُ اِلَّا دُعَآءً وَّ نِدَآءً صُمٌّۢ بُكْمٌ عُمْيٌ فَهُمْ لَا يَعْقِلُوْنَ» [ البقرۃ: ۱۷۱ ]”اور ان لوگوں کی مثال جنھوں نے کفر کیا، اس شخص کی مثال جیسی ہے جو ان جانوروں کو آواز دیتا ہے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہیں سنتے، بہرے ہیں، گونگے ہیں، اندھے ہیں، سو وہ نہیں سمجھتے۔“ گویا جس کا دل عقل سے خالی ہے اس کی آنکھوں اور کانوں کا اسے کوئی فائدہ نہیں۔ اسی طرح اس آیت میں ان لوگوں کو جنھوں نے سفر نہیں کیا، ترغیب دی جا رہی ہے کہ دنیا میں چلو پھرو، اس سے تمھاری آنکھیں دیکھ کر اور کان سن کر عبرت و نصیحت حاصل کریں گے۔
➋ فَاِنَّهَا لَا تَعْمَى الْاَبْصَارُ …: ” إِنَّ “ کے بعد ” هَا “ ضمیر قصہ کہلاتی ہے، یہ مذکر بھی آتی ہے، جیسا کہ اس آیت کی ایک قراء ت ” فَإِنَّهُ لَا تَعْمَي الْأَبْصَارُ“ بھی ہے، اس وقت اسے ضمیر شان کہتے ہیں، معنی دونوں کا ایک ہی ہے کہ حقیقت یہ ہے کہ…۔ بینائی دو قسم کی ہے، ایک آنکھوں کی بینائی، اسے بصارت کہتے ہیں اور ایک دل کی بینائی، اسے بصیرت کہتے ہیں۔ اسی طرح اندھا پن بھی دو قسم کا ہے، ایک آنکھوں کا اندھا ہونا اور ایک دل کا اندھا ہونا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، حقیقت یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ وہ دل اندھے ہوتے ہیں جو سینوں میں ہیں۔ یہاں آنکھوں کے اندھا نہ ہونے کا مطلب ہے کہ آنکھیں اندھی ہونے سے کچھ نقصان نہیں، اصل نقصان دل اندھا ہونے اور بصیرت سے محروم ہونے کا ہے۔
➌ بعض اہل علم نے بصارت اور بصیرت کی مثال سواری اور سوار کی بیان فرمائی ہے، اگر سوار دیکھتا ہے تو سواری اندھی ہونے کا خاص نقصان نہیں، لیکن اگر سوار اندھا ہے تو سواری کی نگاہ جتنی بھی تیز ہو کچھ فائدہ نہیں۔
➍ موجودہ سائنس کا کہنا ہے کہ سوچنا سمجھنا دماغ کا کام ہے دل کا نہیں، جب کہ اللہ تعالیٰ نے اس دل کو عقل کا مرکز قرار دیا ہے جو سینے میں ہے، اس دماغ کو نہیں جو سر میں ہے۔ اب بعض لوگوں نے کہا کہ قرآن نے سائنس کی زبان میں بات نہیں کی، ادبی زبان میں بات کی ہے مگر یہ بات درست نہیں، کیونکہ سائنس کے نظریات بدلتے رہتے ہیں، جب کہ اللہ کا فرمان اٹل ہے اور کبھی غلط نہیں ہو سکتا۔ یہ بات تو ہر شخص جانتا ہے کہ دماغ کو خون دل ہی سے پہنچتا ہے، عین ممکن ہے کہ دماغ محض ایک سٹور ہو جس کا بٹن دل میں ہے اور یہ بھی عین ممکن ہے اور بے شمار دفعہ ہوا ہے کہ یہاں بھی سائنس اصل حقیقت تک پہنچ جائے اور دل کو عقل کا مرکز تسلیم کرلے۔