تفسير ابن كثير



تفسیر القرآن الکریم

(آیت 40) الَّذِيْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِيَارِهِمْ بِغَيْرِ حَقٍّ …: یہ آیت دلیل ہے کہ اس سورت کا یہ حصہ مدینہ میں نازل ہوا ہے۔

➋ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مشرکین کے دو ظلم بیان فرمائے ہیں، ایک یہ کہ انھوں نے مسلمانوں کو ان کے گھروں سے نکال دیا، جب کہ یہ تمام دنیا کا مسلمہ قاعدہ ہے کہ جو شخص جہاں رہتا ہے وہاں رہنے میں اور اس کی تمام سہولتوں سے فائدہ اٹھانے میں وہاں کے تمام لوگوں کے ساتھ برابر حق رکھتا ہے اور کسی کو حق نہیں کہ اسے اس کے گھر سے نکال باہر کرے۔ دوسرا ظلم یہ کہ انھوں نے مسلمانوں کو صرف اس جرم کی وجہ سے ان کے گھروں سے نکالا کہ وہ کہتے تھے ہمارا رب صرف اللہ ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ جرم ہے ہی نہیں بلکہ عین عدل ہے اور یہ گھروں سے نکالنے کا باعث نہیں بلکہ امن و سکون سے اپنے گھروں میں سکونت کا ضامن ہے۔ دراصل اس میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی ایسے طریقے سے تعریف فرمائی ہے کہ ان سے ہر جرم کی نفی کرکے اس چیز کو ان کا جرم بیان کیا ہے جو حقیقت میں جرم نہیں خوبی ہے، جیسا کہ عرب کے ایک شاعر نے کچھ لوگوں کی تعریف کرتے ہوئے کہا:

وَلَا عَيْبَ فِيْهِمْ غَيْرَ أَنَّ سُيُوْفَهُمْ

بِهِنَّ فُلُوْلٌ مِنْ قِرَاعِ الْكَتَائِبِ


ان میں اس کے سوا کوئی عیب نہیں کہ ان کی تلواروں میں دشمن کے لشکروں سے کھٹکھٹانے کی وجہ سے دندانے پڑے ہوئے ہیں۔

ظاہر ہے کہ جسے وہ عیب کہہ رہا ہے وہ دراصل بہت بڑی خوبی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دوسرے مقامات پر بھی کفار کا یہ ظلم یاد دلا کر مسلمانوں کو ان کی دوستی سے منع فرمایا ہے، فرمایا: «‏‏‏‏يُخْرِجُوْنَ الرَّسُوْلَ وَ اِيَّاكُمْ اَنْ تُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ رَبِّكُمْ» ‏‏‏‏ [ الممتحنۃ: ۱ ] وہ رسول کو اور خود تمھیں اس لیے نکالتے ہیں کہ تم اللہ پر ایمان لائے ہو۔

وَ لَوْ لَا دَفْعُ اللّٰهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ …: صَوَامِعُ صَوْمَعَةٌ کی جمع ہے، وہ عبادت خانہ جو عیسائی راہب آبادیوں سے دور اونچے مینار کی شکل میں بناتے تھے، جس کی اوپر کی منزل میں وہ اکیلے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے رہتے اور مینار کی چوٹی پر عموماً رات کو چراغ جلاتے، تاکہ مسافر راستہ معلوم کر سکیں اور نچلی منزل میں قیام کر سکیں۔ امرؤ القیس نے کہا ہے:

تُضِيْءُ الظَّلَامَ بِالْعَشِيِّ كَأَنَّهَا

مَنَارَةُ مُمْسَي رَاهِبٍ مُتَبَتِّلٖ


بِيَعٌ بِيْعَةٌ کی جمع ہے، آبادیوں میں نصرانیوں کے گرجے۔ صَلَوٰتٌ یہودیوں کے عبادت خانے، یہ صَلَاةٌ کی جمع ہے۔ شاید ان کا نام صَلَوٰتٌ اس لیے رکھا گیا ہو کہ یہودیوں کو صرف اپنے عبادت خانے میں نماز پڑھنا لازم تھا۔ بعض کہتے ہیں یہ صلوتا کی جمع ہے جو غیر عربی لفظ ہے اور یہودیوں کے عبادت خانے پر بولا جاتا ہے۔ لَهُدِّمَتْ باب تفعیل کی وجہ سے ترجمہ ہو گا بری طرح ڈھا دیے جاتے یعنی اللہ تعالیٰ نے دنیا کا نظام ہی ایسا رکھا ہے کہ ہر چیز، ہر شخص اور ہر جماعت، دوسری چیز، یا شخص یا جماعت کے مقابلے میں اپنا وجود قائم رکھنے کے لیے جنگ کرتی رہے، اگر ایسا نہ ہوتا اور نیکی کو اللہ تعالیٰ اپنی حمایت میں لے کر بدی کے مقابلے میں کھڑا نہ کرتا تو نیکی کا نشان تک زمین پر باقی نہ رہتا۔ بے دین اور شریر لوگ، جن کی ہر زمانے میں کثرت رہی ہے، تمام مقدس مقامات اور شعائر اللہ کو ہمیشہ کے لیے صفحۂ ہستی سے مٹا دیتے۔ اس لیے ضروری ہوا کہ بدی کی طاقتیں کتنی ہی جمع ہو جائیں، اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک وقت آئے جب نیکی کے ہاتھوں بدی کے حملوں کا دفاع کرایا جائے اور حق تعالیٰ اپنے دین کی مدد کرنے والوں کی خود مدد فرما کر ان کو دشمنانِ حق پر غالب کرے۔ بہرحال اس وقت مسلمانوں کو ظالم کافروں کے مقابلے میں جہاد و قتال کی اجازت دینا اسی قانون قدرت کے ماتحت تھا اور یہ وہ عام قانون ہے جس کا انکار کوئی عقل مند نہیں کر سکتا۔ اگر دفاع و حفاظت کا یہ قانون نہ ہوتا تو اپنے اپنے زمانے میں نہ نصرانی راہبوں کے صوامع قائم رہتے اور نہ نصاریٰ کے گرجے، نہ یہود کے عبادت خانے اور نہ مسلمانوں کی وہ مسجدیں جن میں اللہ کا ذکر بڑی کثرت سے ہوتا ہے، یہ سب عبادت گاہیں گرا کر اور بری طرح ڈھا کر ملیامیٹ کر دی جاتیں۔ تواس عام قانون کے تحت کوئی وجہ نہیں کہ مسلمانوں کو ایک مناسب وقت پر اپنے دشمنوں سے لڑنے کی اجازت نہ دی جائے۔ اس مضمون کی ایک اور آیت کے لیے دیکھیے سورۂ بقرہ (۲۵۱)۔

➍ اس آیت سے معلوم ہوا کہ غیر مسلموں کی عبادت گاہوں کی حفاظت کی جائے، ان کو مسمار نہ کیا جائے، کیونکہ ان میں اللہ کا ذکر ہوتا ہے، البتہ بت خانے اور آتش کدے صرف اس صورت میں باقی رکھے جائیں گے جب کسی قوم سے معاہدے میں انھیں باقی رکھنا شامل ہو۔

وَ لَيَنْصُرَنَّ اللّٰهُ مَنْ يَّنْصُرُهٗ: اللہ کی مدد سے مراد اللہ کے دین کی مدد ہے، کیونکہ اس نے خود فرمایا ہے: «‏‏‏‏يٰۤاَيُّهَا النَّاسُ اَنْتُمُ الْفُقَرَآءُ اِلَى اللّٰهِ وَ اللّٰهُ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيْدُ» [ فاطر: ۱۵] اے لوگو! تم ہی اللہ کی طرف محتاج ہو اور اللہ ہی سب سے بے پروا، تمام تعریفوں کے لائق ہے۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی مدد حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی خود بھی اس کے دین کو فروغ دینے کی کوشش کرے۔ دین کی مدد دلیل و برہان کے ساتھ بھی ہے اور سیف و سنان کے ساتھ بھی، اسی طرح جان کے ساتھ بھی ہے اور مال کے ساتھ بھی، پھر ہاتھوں کے ساتھ بھی ہے اور زبان کے ساتھ بھی، غرض ہر طرح سے اللہ کے دین کی مدد لازم ہے اور جو بھی یہ فریضہ سرانجام دے گا اللہ تعالیٰ اس کی یقینا ضرور مدد فرمائے گا، خواہ اس کے لیے نصرت کے دنیوی اسباب مہیا فرما دے یا غیب سے اپنے لشکروں میں سے کسی لشکر کے ساتھ مدد کر دے، فرمایا: «‏‏‏‏وَ مَا یَعْلَمُ جُنُوْدَ رَبِّکَ اَلَّا ھُوَ» ‏‏‏‏ [ المدثر: ۳۱ ] اور تیرے رب کے لشکروں کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ جیسے بدر میں فرشتوں کے ذریعے سے مدد فرمائی (انفال: ۹) اور خندق میں آندھی اور ان لشکروں کے ذریعے سے مدد فرمائی جو تم نے نہیں دیکھے۔ (احزاب: ۹)

اِنَّ اللّٰهَ لَقَوِيٌّ عَزِيْزٌ: بے شک اللہ یقینا بہت قوت والا، سب پر غالب ہے۔ جس کی وہ مدد کرے یقینا وہی غالب ہو گا اور اس کا مدمقابل مغلوب ہو گا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنا یہ وعدہ پورا فرمایا اور اپنے دین کی مدد کرنے والے انصار و مہاجرین اور ان کے پیروکاروں کے ہاتھوں زمین کے جابر و قاہر بادشاہوں کو مغلوب و مقہور کرکے مشرق سے مغرب تک اسلام کا بول بالا کر دیا۔ « وَ مَنْ اَصْدَقُ مِنَ اللّٰهِ حَدِيْثًا » [ النساء: ۸۷ ] اور اللہ سے بڑھ کر بات کا سچا کون ہے؟



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.