تفسير ابن كثير



تفسیر القرآن الکریم

(آیت 36)وَ الْبُدْنَ جَعَلْنٰهَا لَكُمْ مِّنْ شَعَآىِٕرِ اللّٰهِ: الْبُدْنَ بَدَنَةٌ کی جمع ہے، بڑے بدن والا جانور۔ یہ لفظ بڑے جسم کی وجہ سے اونٹ کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اس سے پہلے قربانی کے لیے سورۂ انعام (۱۴۳، ۱۴۴) میں بَهِيْمَةُ الْأَنْعَامِ یعنی پالتو چوپاؤں کا ذکر فرمایا تھا جو بھیڑ، بکری، اونٹ اور گائے ہیں۔ اس آیت میں بڑے جانوروں کا ذکر خصوصاً فرمایا، کیونکہ چوپاؤں میں بطور شعائر الله وہ زیادہ نمایاں ہوتے ہیں، خاص طور پر اونٹ اپنے بلند قد کی وجہ سے اور اِشعار کی وجہ سے زیادہ ہی نمایاں ہوتا ہے۔ اِشعار کا مطلب یہ ہے کہ جب مکہ میں قربانی کے اونٹ روانہ کیے جاتے ہیں تو ان کے کوہان کے دائیں طرف برچھی وغیرہ سے زخم کرکے خون جلد پر مل دیا جاتا ہے، جو علامت ہوتا ہے کہ یہ جانور مکہ معظمہ قربانی کے لیے جا رہے ہیں اور جس سے ہر دیکھنے والا ان کی تعظیم و تکریم اور خدمت کرتا ہے۔ گائے کو بھی بَدَنَةٌ کہہ لیتے ہیں، قاموس میں ہے: اَلْبَدَنَةُ مُحَرَّكَةً مِنَ الْإِبِلِ وَالْبَقَرِ كَالْأُضْحِيَةِ مِنَ الْغَنَمِ یعنی جس طرح بھیڑ بکری کی قربانی کو اضحیہ کہتے ہیں اسی طرح اونٹ اور گائے کو بدنہ کہتے ہیں۔ حدیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے، جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں: [ خَرَجْنَا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُهِلِّيْنَ بِالْحَجِّ فَأَمَرَنَا رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اَنْ نَّشْتَرِكَ فِي الْإِبِلِ، وَالْبَقَرِ، كُلُّ سَبْعَةٍ مِنَّا فِيْ بَدَنَةٍ ] [ مسلم، الحج، باب جواز الاشتراک في الھدی…: 1318/351 ] ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کا احرام باندھے ہوئے نکلے تو ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ہم اونٹوں اور گائیوں میں شریک ہو جائیں، ہم میں سے ہر سات آدمی ایک بدنہ میں شریک ہو جائیں۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اونٹ اور گائے دونوں کو بدنہ کہتے ہیں اور یہ کہ حج کے موقع پر اونٹ اور گائے دونوں میں سات سات آدمی شریک ہو سکتے ہیں۔ دوسری روایت ابن عباس رضی اللہ عنھما سے مروی ہے، بیان کرتے ہیں: [ كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيْ سَفَرٍ فَحَضَرَ الْأَضْحٰی فَاشْتَرَكْنَا فِي الْبَقَرَةِ سَبْعَةً وَفِي الْجَزُوْرِ عَشْرَةً ] [ ترمذي، الحج، باب ما جاء في الاشتراک في البدنۃ والبقرۃ: ۹۰۵، وقال حدیث حسن صحیح وقال الألباني صحیح ] ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں تھے تو نحر (قربانی کا وقت) آگیا تو ہم نے گائے سات آدمیوں کی طرف سے ذبح کی اور اونٹ دس آدمیوں کی طرف سے۔ ترمذی کے علاوہ اسے احمد، نسائی اور طبرانی نے بھی روایت کیا ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حج کے علاوہ دوسرے مقامات پر عید الاضحی کے موقع پر اونٹ میں دس آدمی شریک ہو سکتے ہیں۔ ہاں، حج کے موقع پر سات آدمی شریک ہوں گے، جیسا کہ مسلم کی حدیث میں گزرا ہے۔ البتہ ہمارے استاذ محمد عبدہ رحمہ اللہ نے لکھا ہے: ایک اونٹ کی قربانی میں دس اور ایک گائے کی قربانی میں سات شریک ہو سکتے ہیں، جیسا کہ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنھما کی روایت میں ہے اور صحیح مسلم میں جو جابر رضی اللہ عنہ والی روایت میں اَلْجَزُوْرُ عَنْ سَبْعَةٍ (اونٹ سات کی طرف سے) آیا ہے وہ اس کے منافی نہیں ہے، کیونکہ دس والی روایت جواز پر محمول ہے۔

لَكُمْ فِيْهَا خَيْرٌ: خَيْرٌ میں تنوین تعظیم کے لیے ہے، اس لیے ترجمہ کیا گیا ہے تمھارے لیے ان میں بڑی خیر ہے۔ اس خیر میں وہ منافع بھی شامل ہیں جو آیت (۲۳) کی تفسیر میں گزرے ہیں اور ذبح کرنے کے بعد ان کے گوشت، چمڑے، ہڈیوں اور جسم کے ہر حصے سے فائدہ اٹھانا بھی شامل ہے۔ آخرت میں ملنے والا اجر و ثواب اس کے علاوہ ہے اور وہ ایسی خیر ہے جو شمار سے باہر ہے۔

فَاذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ عَلَيْهَا: یہ کہنے کے بجائے کہ انھیں ذبح کرو، فرمایا، ان پر اللہ کا نام لو۔ اس لفظ کو بار بار دہرانے سے یہ بات ذہن نشین کرانا مقصود ہے کہ اللہ کے پیدا کیے یہ چوپائے اسی کے نام پر ذبح ہونے چاہییں، نہ کسی غیر سے کوئی مراد بر لانے کی نیت پر اور نہ کسی غیر کے نام پر۔

صَوَآفَّ صَافَّةٌ کی جمع ہے بروزن فَوَاعِلَ۔ صف کا معروف معنی قطار ہے، یعنی اونٹوں کو قربان گاہ میں قطار کی صورت میں کھڑا کرکے باری باری نحر کرنا چاہیے، کیونکہ اس سے قربانی کے جمال و جلال میں اضافہ ہوتا ہے، جیسا کہ جابر رضی اللہ عنہ سے مروی لمبی حدیث میں ہے: [ ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَی الْمَنْحَرِ فَنَحَرَ ثَلاَثًا وَسِتِّيْنَ بِيَدِهٖ ثُمَّ أَعْطٰی عَلِيًّا فَنَحَرَ مَا غَبَرَ ] [ مسلم، الحج، باب حجۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم : ۱۲۱۸۔ مسند أحمد: ۳ /۳۲۰،۳۲۱، ح: ۱۴۴۵۳ ] پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قربان گاہ کی طرف پلٹے اور اپنے ہاتھ سے تریسٹھ (۶۳) اونٹ نحر کیے، آپ انھیں ایک برچھے کے ساتھ زخم لگاتے تھے، پھر آپ نے وہ برچھا علی رضی اللہ عنہ کو دے دیا تو انھوں نے باقی کو نحر کر دیا (اور وہ کل سو اونٹ تھے)۔ اس سے معلوم ہوا کہ اس وقت بھی منیٰ میں باقاعدہ قربان گاہ تھی، جیسا کہ آج کل حکومت نے باقاعدہ جگہیں مقرر کر رکھی ہیں اور یہ بھی کہ سب اونٹ وہاں قریب قریب جمع تھے۔ (ابن عاشور) مگر حبر الامہ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنھما نے اس کی تفسیر فرمائی ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ اونٹوں کو تین ٹانگوں پر کھڑا کر کے نحر کیا جائے، اس طرح کہ ان کی اگلی بائیں ٹانگ اکٹھی کرکے باندھی ہوئی ہو۔ [ طبري بسند ثابت ] جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: [ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابَهٗ كَانُوْا يَنْحَرُوْنَ الْبَدَنَةَ مَعْقُوْلَةَ الْيُسْرٰی قَائِمَةً عَلٰی مَا بَقِيَ مِنْ قَوَائِمِهَا ] [ أبوداوٗد، المناسک، باب کیف تنحر البدن: ۱۷۶۷، و صححہ الألباني ] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب اونٹوں کو اس طرح نحر کرتے تھے کہ ان کے اگلے بائیں پاؤں کا گھٹنا بندھا ہوتا اور وہ باقی ٹانگوں پر کھڑے ہوتے۔ ابن عمر رضی اللہ عنھما ایک آدمی کے پاس سے گزرے جس نے اپنی اونٹنی بٹھا رکھی تھی اور اسے نحر کر رہا تھا تو فرمایا: اسے کھڑا کرکے پاؤں باندھ کر نحر کرو، یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ [ بخاري، الحج، باب نحر الإبل مقیدۃ: ۱۷۱۳] قرآن مجید کے الفاظ فَاِذَا وَجَبَتْ جُنُوْبُهَا (جب ان کے پہلو گر پڑیں) سے بھی ظاہر ہو رہا ہے کہ اونٹوں کو کھڑا کرکے نحر کرنا چاہیے، کیونکہ اگر ان کے پہلو پہلے ہی زمین پر ہوں تو وہ کیسے گریں گے؟

فَاِذَاوَجَبَتْ جُنُوْبُهَا: نحر یہ ہے کہ اونٹ کو اگلی بائیں ٹانگ بندھی ہونے کی حالت میں کھڑا کر دیا جاتا ہے، پھر اس کے سینے کے گڑھے میں، جہاں سے گردن شروع ہوتی ہے، کوئی برچھا یا نیزہ یا چھرا بِسْمِ اللّٰهِ وَاللّٰهُ اَكْبَرُ پڑھ کر مارا جاتا ہے جس سے خون کا پرنالہ بہ نکلتا ہے، بہت سا خون نکل جانے پر اونٹ دائیں یا بائیں کروٹ پر گر پڑتا ہے۔ اس کی جان پوری طرح نکلنے سے پہلے اس کی کھال اتارنا یا گوشت کا کوئی ٹکڑا کاٹنا منع ہے، کیونکہ شداد بن اوس رضی اللہ عنہ نے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ إِنَّ اللّٰهَ كَتَبَ الْإِحْسَانَ عَلٰی كُلِّ شَيْءٍ فَإِذَا قَتَلْتُمْ فَأَحْسِنُوا الْقِتْلَةَ وَإِذَا ذَبَحْتُمْ فَأَحْسِنُوا الذَّبْحَ وَلْيُحِدَّ أَحَدُكُمْ شَفْرَتَهٗ فَلْيُرِحْ ذَبِيْحَتَهٗ ] [ مسلم، الصید و الذبائح، باب الأمر بإحسان الذبح…: ۱۹۵۵ ] اللہ تعالیٰ نے ہر چیز پر احسان یعنی اس سے اچھا سلوک کرنا فرض فرمایا ہے، سو تم جب قتل کرو تو اچھے طریقے سے قتل کرو اور ذبح کرو تو اچھے طریقے سے ذبح کرو اور لازم ہے کہ تم میں سے ہر ایک اپنی چھری تیز کرے اور اپنے ذبیحہ کو راحت پہنچائے۔ اور ابو واقد لیثی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ مَا قُطِعَ مِنَ الْبَهِيْمَةِ وَهِيَ حَيَّةٌ فَهِيَ مَيْتَةٌ ] [ أبوداوٗد، الضحایا، باب إذا قطع من الصید قطعۃ: ۲۸۵۸۔ ترمذي: ۱۴۸۰ ] جانور کا جو حصہ اس وقت کاٹا جائے جب وہ زندہ ہو تو وہ (گوشت) مردار ہے۔ شیخ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہا ہے۔

فَكُلُوْا مِنْهَا …: اس کی تفسیر کے لیے دیکھیے اس سے پہلے آیت (۲۸) کی تفسیر۔ الْقَانِعَ قَنِعَ يَقْنَعُ (ع) سے اسم فاعل ہے، قناعت کرنے والا، اللہ نے جو دیا ہے اس پر صبر کرکے سوال سے بچنے والا۔ الْمُعْتَرَّ (سوال کے لیے) سامنے آنے والا۔ فَكُلُوْا میں فاء سے معلوم ہوتا ہے کہ قربانی کے جانور کی جان پوری طرح نکلنے کے بعد جتنی جلدی ہو سکے اس کا گوشت کھانے اور کھلانے کا اہتمام کرنا چاہیے، کیونکہ قربانی کے گوشت ہی سے ناشتہ کرنا مستحب ہے۔ معلوم ہوا قربانی کا گوشت خود بھی کھانا چاہیے، دوست احباب، خویش و اقارب اور ان مساکین کو بھی کھلانا چاہیے جو سوال نہیں کرتے اور ان فقراء و مساکین کو بھی جو سوال کے لیے آ جاتے ہیں۔ گویا قربانی کے گوشت کے تین حصے کیے جا سکتے ہیں اور ضروری نہیں کہ تینوں برابر ہوں۔

كَذٰلِكَ سَخَّرْنٰهَا لَكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ: یعنی یہ ہم ہیں جنھوں نے اس طرح بے بس کرکے اتنے بڑے قوی ہیکل اونٹ اور بیل، جو طاقت میں تم سے کہیں زیادہ ہیں، تمھارے تابع کر دیے ہیں۔ تم ان سے جو فائدہ چاہتے ہو اٹھاتے ہو، ان پر بوجھ لادتے ہو، سواری کرتے ہو، دودھ پیتے ہو اور جب چاہتے ہو ذبح کر لیتے ہو، وہ اف نہیں کرتے۔ مقصد یہ ہے کہ تم ہمارا شکر ادا کرو، نہ کہ مشرکین کی طرح ان کا جن کا نہ ان چوپاؤں کے پیدا کرنے میں کوئی دخل ہے اور نہ تمھارے لیے تابع کرنے میں۔



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.