تفسير ابن كثير



تفسیر القرآن الکریم

(آیت 35) الَّذِيْنَ اِذَا ذُكِرَ اللّٰهُ وَ جِلَتْ قُلُوْبُهُمْ: وَجِلَ يَوْجَلَ وَجْلاً (ع) شدید خوف۔ اس آیت میں الْمُخْبِتِيْنَ (تواضع اور عاجزی کرنے والوں) کے اوصاف بیان ہوئے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ کی ذات یا صفات یا اس کے کسی حکم کا ذکر آتا ہے تو ان کے دل سخت ڈر جاتے ہیں اور وہ اللہ کی حمد و ثنا اور اس سے استغفار کرتے ہیں اور دل و جان سے اس کا حکم بجا لاتے ہیں۔ کفار کی طرح نہیں کہ جن کے دل اکیلے اللہ کا ذکر ہونے پر تنگ پڑ جاتے ہیں، جیسا کہ فرمایا: « وَ اِذَا ذُكِرَ اللّٰهُ وَحْدَهُ اشْمَاَزَّتْ قُلُوْبُ الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ وَ اِذَا ذُكِرَ الَّذِيْنَ مِنْ دُوْنِهٖۤ اِذَاهُمْ يَسْتَبْشِرُوْنَ» [ الزمر: ۴۵ ] اور جب اس اکیلے اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان لوگوں کے دل تنگ پڑجاتے ہیں جو آخرت پر یقین نہیں رکھتے اور جب ان کا ذکر ہوتا ہے جو اس کے سوا ہیں تو اچانک وہ بہت خوش ہو جاتے ہیں۔ اور جب ان کے سامنے اللہ کی آیات پڑھی جاتی ہیں تو نہایت تکبر سے منہ پھیر کر چل دیتے ہیں جیسے انھوں نے وہ سنی ہی نہیں، فرمایا: « وَ اِذَا تُتْلٰى عَلَيْهِ اٰيٰتُنَا وَلّٰى مُسْتَكْبِرًا كَاَنْ لَّمْ يَسْمَعْهَا كَاَنَّ فِيْۤ اُذُنَيْهِ وَقْرًا فَبَشِّرْهُ بِعَذَابٍ اَلِيْمٍ» [ لقمان: ۷ ] اور جب اس پر ہماری آیات کی تلاوت کی جاتی ہے تو تکبر کرتے ہوئے منہ پھیر لیتا ہے، گویا اس نے وہ سنی ہی نہیں، گویا اس کے دونوں کانوں میں بوجھ ہے، سو اسے دردناک عذاب کی خوش خبری دے دے۔ ایسے متکبروں کے دلوں پر اللہ تعالیٰ بھی مہر لگا دیتا ہے، فرمایا: « كَذٰلِكَ يَطْبَعُ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ قَلْبِ مُتَكَبِّرٍ جَبَّارٍ » [المؤمن: ۳۵ ] اسی طرح اللہ ہر متکبر، سرکش کے دل پر مہر لگا دیتا ہے۔

وَ الصّٰبِرِيْنَ عَلٰى مَاۤ اَصَابَهُمْ: یہ آیات چونکہ حج کے بیان میں آئی ہیں اور حج میں سفر کی صعوبتوں کے علاوہ بہت سی مشکلات پیش آتی ہیں، بعض ساتھیوں کے مزاج کی شدت، خود غرضی یا ضروریات کی کمی کی وجہ سے لڑائی جھگڑے کی نوبت آتی ہے، خصوصاً جب ان میں بدعقیدہ اور مشرک لوگ بھی ہوں، کیونکہ یہ سورت مکہ میں اتری اور اب بھی بہت سے حاجی وہ ہوتے ہیں جو شرک و بدعت میں گرفتار ہوتے ہیں اور توحید و سنت کی بات سننا برداشت ہی نہیں کر سکتے۔ بعض اوقات بھوک، بیماری، راستے کی رکاوٹیں اور قدرتی آفات پیش آ جاتی ہیں، تو اللہ کے وہ متواضع بندے ان سب مواقع پر «فَلَا رَفَثَ وَ لَا فُسُوْقَ وَ لَا جِدَالَ» ‏‏‏‏ [ البقرۃ: ۱۹۷ ] اور «‏‏‏‏وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِيْنَ (155) الَّذِيْنَ اِذَاۤ اَصَابَتْهُمْ مُّصِيْبَةٌ قَالُوْۤا اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ» ‏‏‏‏ [ البقرۃ: ۱۵۵، ۱۵۶ ] پر عمل کرتے ہوئے اتنا صبر کرتے ہیں کہ صابرین کے لقب سے سرفراز ہوتے ہیں۔

وَ الْمُقِيْمِي الصَّلٰوةِ: اَلْمُقِيْمِيْنَ کا نون الصَّلٰوةِ کی طرف مضاف ہونے کی وجہ سے گر گیا ہے۔ مضاف پر اگرچہ الف لام نہیں آتا مگر اسم فاعل یا صفت کا کوئی صیغہ اپنے معمول کی طرف مضاف ہو تو اس پر الف لام آ جاتا ہے۔ سفر حج کی صعوبتوں کی وجہ سے عین ممکن ہے کہ نماز میں سستی ہو جائے، یا وہ صحیح طریقے سے ادا نہ کی جا سکے، مگر اللہ کے وہ عاجز بندے اللہ سے اتنی محبت رکھتے اور نماز میں غفلت سے اس قدر خوف زدہ رہتے ہیں کہ ہر وقت اس کی فکر میں رہتے ہیں اور اسے اتنی پابندی سے بروقت اور صحیح طریقے سے ادا کرتے ہیں کہ باری تعالیٰ کی طرف سے انھیں نماز قائم کرنے والے کا لقب عطا ہوتا ہے، گویا وہ ہر وقت نماز ہی میں ہیں۔

وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ يُنْفِقُوْنَ: اس سفر میں چونکہ خرچ بہت ہوتا ہے، اس لیے فرمایا کہ ہمارے وہ بندے سفر کے خرچ میں، یا کھانے پینے کے خرچ میں، یا اپنے ساتھیوں پر خرچ کرنے میں، یا قربانی وغیرہ پر خرچ کرنے میں بخل نہیں کرتے، بلکہ ہم نے جو کچھ انھیں دیا ہے، یہ سمجھ کر کہ یہ اللہ تعالیٰ کی نعمت اور اسی کا عطا کردہ ہے، فراخ دلی سے خرچ کرتے ہیں۔

➎ اس آیت کی مندرجہ بالا تفسیر مفسر بقاعی نے سیاق و سباق کے لحاظ سے کی ہے۔ الفاظ عام ہونے کا تقاضا ہے کہ الْمُخْبِتِيْنَ (اللہ کے متواضع بندوں) کی یہ صفات ان میں صرف حج کے دوران میں نہیں بلکہ دوسرے تمام اوقات میں بھی پائی جاتی ہیں، جس سے وہ بشارت الٰہی بَشِّرِ الْمُخْبِتِيْنَ کے مستحق بنتے ہیں۔



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.