(آیت 16) ➊ وَ كَذٰلِكَ اَنْزَلْنٰهُ اٰيٰتٍۭ بَيِّنٰتٍ: طبري نے فرمايا: ”اور جس طرح ہم نے مختلف دلائل کے ساتھ ان لوگوں کے لیے اپنی حجت واضح کی ہے جو لوگوں کے مرنے کے بعد انھیں زندہ کرنے پر ہمیں قادر نہیں مانتے اور ہم پر ایمان نہیں لاتے، اسی طرح ہم نے یہ پورا قرآن ہی نہایت روشن آیات کی صورت میں اتارا ہے۔“
➋ وَ اَنَّ اللّٰهَ يَهْدِيْ مَنْ يُّرِيْدُ: اس جملے کا پچھلے جملے سے کیا تعلق ہے اور درمیان میں واؤ لانے کی کیا حکمت ہے؟ اس سوال کے حل کے لیے اہلِ علم نے آیت کی کئی نحوی ترکیبیں کی ہیں، مگر مجھے سب سے قریب بقاعی کی تفسیر معلوم ہوتی ہے۔ تفصیل اس کی یہ ہے کہ ” وَ اَنَّ اللّٰهَ يَهْدِيْ مَنْ يُّرِيْدُ “ میں ”واؤ“ سے معلوم ہو رہا ہے کہ اس کا کسی محذوف پر عطف ہے جو ” وَ كَذٰلِكَ اَنْزَلْنٰهُ اٰيٰتٍۭ بَيِّنٰتٍ “ سے تعلق رکھتا ہے، چنانچہ پوری عبارت یوں ہو گی: ” وَكَذٰلِكَ أَنْزَلْنَاهُ آيَاتٍ بَيِّنَاتٍ لِيُعْلَمَ أَنَّ اللّٰهَ يُضِلُّ مَنْ يَّشَاءُ وَ أَنَّ اللّٰهَ يَهْدِيْ مَنْ يُّرِيْدُ “”اور اسی طرح ہم نے اسے روشن آیات کی صورت میں نازل کیا ہے، تاکہ سب کو معلوم ہو جائے کہ اللہ گمراہ کرتا ہے جسے چاہتا ہے اور یہ معلوم ہو جائے کہ بے شک اللہ ہدایت دیتا ہے جسے چاہتا ہے۔“ یعنی گو قرآن میں ایمان و توحید کی روشن دلیلیں موجود ہیں مگر سب لوگوں کے اس سے ہدایت نہ پانے کی وجہ یہ ہے کہ سب کو معلوم ہو جائے کہ گمراہی اور ہدایت اللہ کے ہاتھ میں ہے، وہ جسے چاہتا ہے گمراہ کر دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔ کوئی شخص اپنے بل بوتے پر یہ نعمت حاصل نہیں کر سکتا، اس لیے کہ یہ علم و عقل اور تجربہ تو حقیقت تک پہنچنے کا ایک امکانی ذریعہ ہے، لیکن اس تک رسائی صرف اللہ کی توفیق پر موقوف ہے۔ بعض اہلِ علم نے اس کی یہ ترکیب کی ہے: ”وَالْأَمْرُ أَنَّ اللّٰهَ يَهْدِيْ مَنْ يُّرِيْدُ “”اور اصل معاملہ یہ ہے کہ بے شک اللہ ہدایت دیتا ہے جسے چاہتا ہے۔“ شاہ عبد القادر رحمہ اللہ نے اسی کے مطابق ترجمہ کیا ہے۔