(آیت 110) ➊ اِنَّهٗ يَعْلَمُ الْجَهْرَ مِنَ الْقَوْلِ …: سب کے سامنے کھلم کھلا عمل بھی ہوتا ہے اور قول بھی، اس لیے فرمایا کہ کوئی بھی کھلم کھلی اور بلند آواز میں ہونے والی بات ہو، اللہ تعالیٰ اسے بھی جانتا ہے اور جو بات تم دل میں چھپاتے ہو اسے بھی جانتا ہے۔ یہ تنبیہ اور خبردار کرنے کا مؤثر ترین طریقہ ہے کہ کسی کو غلط کام سے روکنا ہو تو اسے روکنے کے بجائے کہا جائے کہ میں تمھاری سب حرکتیں دیکھ رہا ہوں، مطلب یہ کہ تم سے نمٹ لوں گا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں تمھاری بلند آواز کی باتیں بھی جانتا ہوں اور جو کچھ تم چھپاتے ہو وہ بھی جانتا ہوں۔ مطلب یہ کہ تمھارا کفر بھی مجھے معلوم ہے اور تمھارا نفاق بھی، اس لیے کفر بھی چھوڑ دو اور نفاق بھی، ورنہ میری گرفت کے لیے تیار رہو۔
➋ یہاں ایک سوال ہے کہ چھپی ہوئی بات جاننا تو واقعی کمال ہے اور یہ اللہ ہی کی شان ہے، مگر جہر اور بلند آواز سے کی ہوئی بات تو ہر شخص سن سکتا ہے اور جان سکتا ہے، اس صفت کو خاص طور پر کیوں ذکر فرمایا گیا؟ جواب اس کا یہ ہے کہ بلند آواز سے ایک آدمی بات کرے تو واقعی وہ سمجھ میں آ جاتی ہے مگر جب ایک ہی وقت میں دو چار یا دس پندرہ آدمی اپنی پوری بلند آواز کے ساتھ بات کرنا شروع کر دیں تو آدمی کو کسی کی بات بھی سمجھ میں نہیں آتی، یہ اللہ مالک الملک، سمیع و بصیر کی شان ہے کہ دس پندرہ نہیں کروڑوں، اربوں انسان، جن، فرشتے اور حیوانات اپنی پوری آواز کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں، تو وہ ان سب کی پکار سنتا ہے، جو کچھ وہ کہہ رہے ہوتے ہیں اسے جانتا ہے اور ان کی ضرورتیں پوری کرتا ہے۔ مخلوق میں یہ وصف کہاں؟ (بقاعی)