(آیت 103) ➊ لَا يَحْزُنُهُمُ الْفَزَعُ الْاَكْبَرُ: یہ چوتھی نعمت ہے کہ پہلے کوئی گھبراہٹ ہو تو ہو، آگ سے نجات اور جنت میں داخلے کے بعد وہ ہر گھبراہٹ سے محفوظ رہیں گے، حتیٰ کہ سب سے بڑی گھبراہٹ بھی انھیں غمگین نہیں کرے گی، پھر چھوٹی موٹی گھبراہٹوں کی کیا مجال ہے کہ انھیں غم زدہ کر سکیں؟
➋ الْفَزَعُ الْاَكْبَرُ: ابن عطیہ رحمہ اللہ نے فرمایا: ”یہ نعمت جنت میں داخلے کے بعد حاصل ہو گی۔“ کیونکہ صحیح احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کے ساتھ بہت سے اہل ایمان کا جہنم سے نکلنا اور جنت میں جانا ثابت ہے، اس لیے ”الْفَزَعُ الْاَكْبَرُ “ سے مراد وہ وقت معلوم ہوتا ہے جس کا ذکر ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ يُوْتٰی بِالْمَوْتِ كَهَيْئَةِ كَبْشٍ أَمْلَحَ فَيُنَادِيْ مُنَادٍ يَا أَهْلَ الْجَنَّةِ! فَيَشْرَئِبُّوْنَ وَيَنْظُرُوْنَ فَيَقُوْلُ هَلْ تَعْرِفُوْنَ هٰذَا؟ فَيَقُوْلُوْنَ نَعَمْ، هٰذَا الْمَوْتُ، وَكُلُّهُمْ قَدْ رَآهُ، ثُمَّ يُنَادِيْ يَا أَهْلَ النَّارِ، فَيَشْرَئِبُّوْنَ وَيَنْظُرُوْنَ فَيَقُوْلُ هَلْ تَعْرِفُوْنَ هٰذَا؟ فَيَقُوْلُوْنَ: نَعَمْ، هٰذَا الْمَوْتُ، وَكُلُّهُمْ قَدْ رَآهٗ، فَيُذْبَحُ، ثُمَّ يَقُوْلُ: يَا أَهْلَ الْجَنَّةِ! خُلُوْدٌ فَلاَ مَوْتَ، وَ يَا أَهْلَ النَّارِ! خُلُوْدٌ فَلاَ مَوْتَ، ثُمَّ قَرَأَ: « وَ اَنْذِرْهُمْ يَوْمَ الْحَسْرَةِ اِذْ قُضِيَ الْاَمْرُ وَ هُمْ فِيْ غَفْلَةٍ » وَهٰؤُلَاءِ فيْ غَفْلَةٍ أَهْلُ الدُّنْيَا، « وَ هُمْ لَا يُؤْمِنُوْنَ » ][ بخاري، التفسیر، باب قولہ عز و جل: «وأنذرھم یوم الحسرۃ» : ۴۷۳۰ ]”موت کو ایک سیاہ و سفید مینڈھے کی صورت میں لایا جائے گا، پھر ایک آواز دینے والا آواز دے گا: ”اے جنت والو!“ وہ گردن اٹھائیں گے اور دیکھیں گے تو وہ کہے گا: ”کیا تم اسے پہچانتے ہو؟“ وہ کہیں گے: ”ہاں! یہ موت ہے“ اور ان سب نے اسے دیکھا ہو گا، پھر وہ آواز دے گا: ”اے آگ والو!“ تو وہ گردن اٹھائیں گے اور دیکھیں گے تو وہ کہے گا: ”کیا تم اسے پہچانتے ہو؟“ وہ کہیں گے: ”ہاں! یہ موت ہے“ اور ان سب نے اسے دیکھا ہو گا، پھر اسے ذبح کر دیا جائے گا، پھر وہ کہے گا: ”اے جنت والو! (اب) ہمیشگی ہے اور موت نہیں ہے اور اے آگ والو! (اب) ہمیشگی ہے اور موت نہیں ہے۔“ پھر آپ نے یہ آیت پڑھی: « وَ اَنْذِرْهُمْ يَوْمَ الْحَسْرَةِ اِذْ قُضِيَ الْاَمْرُ وَ هُمْ فِيْ غَفْلَةٍ »[ مریم: ۳۹ ](اور انھیں پچھتاوے کے دن سے ڈرا جب (ہر) کام کا فیصلہ کر دیا جائے گا اور وہ سراسر غفلت میں ہیں) یعنی وہ سراسر دنیا کی غفلت میں ہیں: « وَ هُمْ لَا يُؤْمِنُوْنَ »”اور وہ ایمان نہیں لاتے۔“ابن کثیر نے ”عبد الرزاق عن یحییٰ بن ربیعہ عن عطاء“ یہ قول ذکر فرمایا ہے: ”گویا ” يَوْمَ الْحَسْرَةِ “ اور ” الْفَزَعُ الْاَكْبَرُ “ ایک ہی چیز ہے۔“ اکثر حضرات نے اس سے مراد صور میں آخری پھونک کا وقت مراد لیا ہے۔ بعض نے میدان حشر میں پیش آنے والے ہولناک واقعات مراد لیے ہیں، مگر جو غم یا گھبراہٹ ختم ہو جائے اسے ” الْفَزَعُ الْاَكْبَرُ “ نہیں کہا جا سکتا۔ ابن کثیر میں ہے کہ سعید بن جبیر نے فرمایا: [ حِيْنَ تُطْبَقُ النَّارُ عَلٰی أَهْلِهَا ]”اس سے مراد وہ وقت ہے جب جہنم والوں کے اوپر جہنم کو بند کر دیا جائے گا۔“ دکتور حکمت بن بشیر نے فرمایا: ”اسے طبری نے حسن سند سے ذکر کیا ہے۔“ یہ قول اور موت کو ذبح کرنے کا قول ایک ہی ہے، کیونکہ جہنم کو اسی وقت اوپر سے بند کیا جائے گا جب اس میں وہی لوگ رہ جائیں گے جنھیں ہمیشہ جہنم میں رہنا ہے۔ خلاصہ یہ کہ جنت میں جانے کے بعد جنتی ہر قسم کی گھبراہٹ اور خوف سے محفوظ رہیں گے، حتیٰ کہ سب سے بڑی گھبراہٹ بھی انھیں غم زدہ نہیں کرے گی، بلکہ وہ صرف اور صرف جہنمیوں کے لیے مخصوص ہو گی۔
➌ وَ تَتَلَقّٰىهُمُ الْمَلٰٓىِٕكَةُ …: یہ استقبال جنت میں داخلے کے وقت ہو گا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: « وَ سِيْقَ الَّذِيْنَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ اِلَى الْجَنَّةِ زُمَرًا حَتّٰۤى اِذَا جَآءُوْهَا وَ فُتِحَتْ اَبْوَابُهَا وَ قَالَ لَهُمْ خَزَنَتُهَا سَلٰمٌ عَلَيْكُمْ طِبْتُمْ فَادْخُلُوْهَا خٰلِدِيْنَ»[ الزمر: ۷۳ ]”اور وہ لوگ جو اپنے رب سے ڈر گئے، گروہ در گروہ جنت کی طرف لے جائے جائیں گے، یہاں تک کہ جب وہ اس کے پاس آئیں گے، اس حال میں کہ اس کے دروازے کھول دیے گئے ہوں گے اور اس کے نگران ان سے کہیں گے تم پر سلام ہو، تم پاکیزہ رہے، پس اس میں داخل ہو جاؤ، ہمیشہ رہنے والے۔“ اس سے پہلے موت کے وقت بھی فرشتے ان کا استقبال کریں گے اور بشارتیں دیں گے، فرمایا: « اِنَّ الَّذِيْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلٰٓىِٕكَةُ اَلَّا تَخَافُوْا وَ لَا تَحْزَنُوْا وَ اَبْشِرُوْا بِالْجَنَّةِ الَّتِيْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ (30) نَحْنُ اَوْلِيٰٓؤُكُمْ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَ فِي الْاٰخِرَةِ وَ لَكُمْ فِيْهَا مَا تَشْتَهِيْۤ اَنْفُسُكُمْ وَ لَكُمْ فِيْهَا مَا تَدَّعُوْنَ (31) نُزُلًا مِّنْ غَفُوْرٍ رَّحِيْمٍ »[ حٰمٓ السجدۃ: ۳۰ تا ۳۲ ]”بے شک وہ لوگ جنھوں نے کہا ہمارا رب اللہ ہے، پھر خوب قائم رہے، ان پر فرشتے اترتے ہیں کہ نہ ڈرو اور نہ غم کرو اور اس جنت کے ساتھ خوش ہو جاؤ جس کاتم وعدہ دیے جاتے تھے۔ ہم تمھارے دوست ہیں دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں بھی اور تمھارے لیے اس میں وہ کچھ ہے جو تمھارے دل چاہیں گے اور تمھارے لیے اس میں وہ کچھ ہے جو تم مانگو گے۔ یہ بے حد بخشنے والے، نہایت مہربان کی طرف سے مہمانی ہے۔“ اور فرمایا: « الَّذِيْنَ تَتَوَفّٰىهُمُ الْمَلٰٓىِٕكَةُ طَيِّبِيْنَ يَقُوْلُوْنَ سَلٰمٌ عَلَيْكُمُ ادْخُلُوا الْجَنَّةَ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ »[النحل: ۳۲ ]”جنھیں فرشتے اس حال میں قبض کرتے ہیں کہ پاک ہوتے ہیں۔ کہتے ہیں سلام ہو تم پر، جنت میں داخل ہوجاؤ، اس کے بدلے جو تم کیا کرتے تھے۔“