تفسير ابن كثير



الحمد اللہ کی تفسیر ٭٭

ساتوں قاری «الْحَمْدُ» کو دال پر پیش سے پڑھتے ہیں اور «الْحَمْدُ لِلَّهِ» کو مبتدا خبر مانتے ہیں۔ سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ اور روبہ بن عجاج رحمہ اللہ کا قول ہے کہ «دال» پر زبر کے ساتھ ہے اور فعل یہاں مقدر ہے۔

ابن ابی عبلہ رحمہ اللہ «الْحَمْدُ» کی «دال» کو اور «الله» کے پہلے «لام» دونوں کو پیش کے ساتھ پڑھتے ہیں اور اس «لام» کو پہلے کے تابع کرتے ہیں اگرچہ اس کی شہادت عربی زبان میں ملتی ہے، مگر شاذ ہے۔

حسن رحمہ اللہ اور زید بن علی رحمہ اللہ ان دونوں حرفوں کو زیر سے پڑھتے ہیں اور «لام» کے تابع «دال» کو کرتے ہیں۔

ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں «الْحَمْدُ لِلَّهِ» کے معنی یہ ہیں کہ صرف اللہ تعالیٰ کا شکر ہے اس کے سوا کوئی اس کے لائق نہیں، خواہ وہ مخلوق میں سے کوئی بھی ہو اس وجہ سے کہ تمام نعمتیں جنہیں ہم گن بھی نہیں سکتے، اس مالک کے سوا اور کوئی ان کی تعداد کو نہیں جانتا اسی کی طرف سے ہیں۔ اسی نے اپنی اطاعت کرنے کے تمام اساب ہمیں عطا فرمائے۔ اسی نے اپنے فرائض پورے کرنے کے لیے تمام جسمانی نعمتیں ہمیں بخشیں۔ پھر بےشمار دنیاوی نعمتیں اور زندگی کی تمام ضروریات ہمارے کسی حق بغیر ہمیں بن مانگے بخشیں۔ اس کی لازوال نعمتیں، اس کے تیار کردہ پاکیزہ مقام جنت کو ہم کس طرح حاصل کر سکتے ہیں؟ یہ بھی اس نے ہمیں سکھا دیا پس ہم تو کہتے ہیں کہ اول آخر اسی مالک کی پاک ذات ہر طرح کی تعریف اور حمد و شکر کے لائق ہے ۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:125/1] ‏‏‏‏

«الْحَمْدُ لِلَّهِ» یہ ثنا کا کلمہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی ثنا و خود آپ کی ہے اور اسی ضمن میں گویا یہ فرما دیا ہے کہ تم کہو «الْحَمْدُ لِلَّهِ» بعض نے کہا کہ «الْحَمْدُ لِلَّهِ» کہنا اللہ تعالیٰ کے پاکیزہ ناموں اور اس کی بلند و بالا صفتوں سے اس کی ثنا کرنا ہے۔ اور «الشُّكْرُ لِلَّهِ» کہنا اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور اس کے احسان کا شکریہ ادا کرنا ہے ۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:138/1] ‏‏‏‏ لیکن یہ قول ٹھیک نہیں۔ اس لیے کہ عربی زبان کو جاننے والے علماء کا اتفاق ہے۔ کہ شکر کی جگہ حمد کا لفظ اور حمد کی جگہ شکر کا لفظ بولتے ہیں۔ جعفر صادق رحمہ اللہ، ابن عطا صوفی رحمہ اللہ بھی فرماتے ہیں۔

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ہر شکر کرنے والے کا کلمہ «الْحَمْدُ لِلَّهِ» ہے۔

قرطبی رحمہ اللہ نے ابن جریر رحمہ اللہ کے قول کو معتبر کرنے کے لیے یہ دلیل بھی بیان کی ہے کہ اگر کوئی «الْحَمْدُ لِلَّهِ شُكْرًا» کہے تو جائز ہے۔

دراصل علامہ ابن جریر رحمہ اللہ کے اس دعویٰ میں اختلاف ہے، پچھلے علماء میں مشہور ہے کہ «حَمْدَ» کہتے ہیں زبانی تعریف بیان کرنے کو خواہ جس کی حمد کی جاتی ہو اس کی لازم صفتوں پر ہو یا متعدی صفتوں پر اور شکر صرف متعدی صفتوں پر ہوتا ہے اور وہ دل زبان اور جملہ ارکان سے ہوتا ہے۔ عرب شاعروں کے اشعار بھی اس پر دلیل ہیں۔

ہاں اس میں اختلاف ہے کہ «حَمْدَ» کا لفظ عام ہے یا «شُّكْر» کا اور صحیح بات یہ ہے کہ اس میں عموم اس حیثیت سے خصوص ہے کہ «حَمْدَ» کا لفظ جس پر واقع ہو وہ عام طور پر «شُّكْر» کے معنوں میں آتا ہے۔ اس لیے کہ وہ لازم اور متعدی دونوں اوصاف پر آتا ہے شہ سواری اور کرم دونوں پر «حَمِدْتُهُ» کہہ سکتے ہیں لیکن اس حیثیت سے وہ صرف زبان سے ادا ہو سکتا ہے یہ لفظ خاص اور «شُّكْر» کا لفظ عام ہے کیونکہ وہ قول، فعل اور نیت تینوں پر بولا جاتا ہے اور صرف متعدی صفتوں پر بولے جانے کے اعتبار سے «شُّكْر» کا لفظ خاص ہے۔ شہ سواری کے حصول پر «شَكَرْتُهُ» نہیں کہہ سکتے البتہ «شَكَرْتُهُ عَلَى كَرَمِهِ وَإِحْسَانِهِ إِلَيَّ» کہہ سکتے ہیں۔ یہ تھا خلاصہ متاخرین کے قول کا۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»

ابونصر اسماعیل بن حماد جوہری کہتے ہیں «حمد» مقابل ہے «ذم» کے۔ لہٰذا یوں کہتے ہیں کہ «حَمِدْتُ الرَّجُلَ أَحْمَدُهُ حَمْدًا وَمَحْمَدَةً فَهُوَ حَمِيدٌ وَمَحْمُودٌ» تحمید میں «حمد» سے زیادہ مبالغہ ہے۔ «حمد» «شکر» سے عام ہے۔ کسی محسن کی دی ہوئی نعمتوں پر اس کی ثنا کرنے کو «شکر» کہتے ہیں۔ عربی زبان میں «شَكَرْتُهُ» اور «شَكَرْتُ لَهُ» دونوں طرح کہتے ہیں لیکن «لام» کے ساتھ کہنا زیادہ فصیح ہے۔ مدح کا لفظ «حمد» سے بھی زیادہ عام ہے اس لیے کہ زندہ مردہ بلکہ جمادات پر بھی مدح کا لفظ بول سکتے ہیں۔ کھانے اور مکان کی اور ایسی اور چیزوں کی بھی مدح کی جاتی ہے احسان سے پہلے، احسان کے بعد، لازم صفتوں پر، متعدی صفتوں پر بھی اس کا اطلاق ہو سکتا ہے تو اس کا عام ہونا ثابت ہوا۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.