(آیت 88) وَ كَذٰلِكَ نُـْۨجِي الْمُؤْمِنِيْنَ: اس کے دو معنی ہیں اور دونوں ہی مراد ہیں، ایک یہ کہ جس طرح ہم نے یونس علیہ السلام کی دعا قبول کرکے انھیں غم سے نجات دی اسی طرح ہم ایمان والوں کو ان کی دعائیں قبول کرکے غم سے نجات دیتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ جس طرح اس دعا کے ساتھ ہم نے یونس علیہ السلام کو غم سے نجات دی اسی طرح ایمان والوں کو ہم اس دعا کے ساتھ غم سے نجات دیتے ہیں۔ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ دَعْوَةُ ذِي النُّوْنِ إِذْ دَعَا وَهُوَ فِيْ بَطْنِ الْحُوْتِ «لَاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنْتَ سُبْحٰنَكَ اِنِّيْ كُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِيْنَ» فَإِنَّهٗ لَمْ يَدْعُ بِهَا رَجُلٌ مُسْلِمٌ فِيْ شَيْءٍ قَطُّ إِلَّا اسْتَجَابَ اللّٰهُ لَهٗ ][ ترمذي، الدعوات، باب في دعوۃ ذي النون: ۳۵۰۵۔ مسند أحمد: 170/1، ح: ۱۶۴۴، و صححہ الألباني ]”ذو النون (یونس علیہ السلام) کی دعا، جو اس نے مچھلی کے پیٹ میں کی «لَاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنْتَ سُبْحٰنَكَ اِنِّيْ كُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِيْنَ» کوئی مسلم آدمی اس کے ساتھ کسی چیز کے بارے میں دعا نہیں کرتا مگر اللہ تعالیٰ اس کی دعا قبول کرتا ہے۔“