(آیت 86) وَ اَدْخَلْنٰهُمْ فِيْ رَحْمَتِنَا اِنَّهُمْ مِّنَ الصّٰلِحِيْنَ: ”صَلَحَ يَصْلَحُ صَلَاحًا“(ف، ن، ک) درست ہونا۔ یہ فساد کی ضد ہے۔ (قاموس) اللہ تعالیٰ نے ان انبیاء کی تعریف فرمائی کہ وہ پوری طرح صالح تھے، ان کا دل اللہ تعالیٰ پر ایمان، اس کی محبت اور ہر وقت اس کے ذکر سے درست تھا۔ ان کی زبان اس کے ذکر، اس کے دین کی دعوت اور ہر وقت سچ کہنے سے درست تھی اور دوسرے تمام اعضاء اس کے احکام کی اطاعت اور منع کردہ چیزوں سے اجتناب کی وجہ سے درست تھے، کیونکہ ان تینوں کے درست ہوئے بغیر کوئی شخص صالح نہیں کہلا سکتا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ صبر و صالحیت کی وجہ سے ہم نے انھیں اپنی رحمت میں داخل کر لیا اور انھیں نبوت عطا کی۔ دنیا و آخرت کی نعمتیں عطا فرمائیں، یہی کیا کم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں ان کی تعریف فرمائی اور قیامت تک کے لیے انھیں حقیقی ناموری عطا فرمائی۔ (سعدی)