(آیت 84،83) ➊ وَ اَيُّوْبَ اِذْ نَادٰى رَبَّهٗۤ …: یعنی ایوب کو یاد کرو۔ داؤد اور سلیمان علیھما السلام کی آزمائش ان نعمتوں کے ساتھ ہوئی جن پر شکر واجب تھا، جبکہ ایوب علیہ السلام کی آزمائش ایسی تکالیف کے ساتھ ہوئی جن پر صبر لازم تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ شکر اور صبر لازم و ملزوم ہیں۔ صبر وہی کر سکتا ہے جو شاکر ہو اور شکر وہی کرتا ہے جو صابر ہو۔ بے صبرا شاکر نہیں ہوتا اور ناشکرا صابر نہیں ہوتا۔ ان کا واقعہ قرآن مجید میں دو جگہ آیا ہے۔ ایک یہاں سورۂ انبیاء میں اور ایک سورۂ ص (۴۱ تا ۴۴) میں۔ ایک دفعہ زیر تفسیر آیات کا ترجمہ ملاحظہ کریں، ساتھ ہی سورۂ ص کی آیات کا ترجمہ دیکھیں، وہاں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ”اور ہمارے بندے ایوب کو یاد کر جب اس نے اپنے رب کو پکارا کہ بے شک شیطان نے مجھے بڑا دکھ اور تکلیف پہنچائی ہے۔ اپنا پاؤں مار، یہ نہانے کا اور پینے کا ٹھنڈا پانی ہے اور ہم نے اسے اس کے گھر والے عطا کر دیے اور ان کے ساتھ اتنے اور بھی، ہماری طرف سے رحمت کے لیے اور عقلوں والوں کی نصیحت کے لیے۔“
ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ ایوب علیہ السلام اللہ کے برگزیدہ نبی تھے۔ اللہ کی طرف سے ان پر ایسی آزمائش آئی کہ وہ شدید اور لمبی بیماری میں مبتلا ہو گئے، ان کے اہل و عیال بھی جدائی یا فوت ہونے کی وجہ سے ان سے جدا ہو گئے۔ (ثنائی) جب کمانے والے ہی نہ رہے تو مال مویشی بھی ہلاک ہو گئے، مگر ایوب علیہ السلام نے ہر مصیبت پر صبر کیا، نہ کوئی واویلا کیا اور نہ کوئی حرف شکایت لب پر لائے۔ جب تکلیف حد سے بڑھ گئی تو انھوں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی۔ ایک یہ کہ اے میرے رب! مجھے شیطان نے بڑا دکھ اور تکلیف پہنچائی ہے۔ دوسری یہ کہ اے میرے رب! مجھے بیماری لگ گئی ہے اور تو رحم کرنے والوں میں سب سے زیادہ رحم والا ہے۔ اس دعا میں انھوں نے اپنی حالت زار بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کے ارحم الراحمین ہونے کے بیان ہی کو کافی سمجھا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرمائی اور حکم دیا کہ زمین پر اپنا پاؤں مارو۔ انھوں نے پاؤں مارا تو ٹھنڈے پانی کا چشمہ نمودار ہو گیا۔ حکم ہوا کہ اسے پیو اور اس سے غسل کرو۔ وہ مبارک پانی پینے اور اس کے ساتھ غسل کرنے سے ان کی ساری بیماری دور ہو گئی اور وہ پوری طرح صحت مند ہو گئے۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں ان کے گھر والے بھی عطا فرما دیے اور اتنے ہی اور عطا فرما دیے۔ بیماری کے دوران انھوں نے کسی پر ناراض ہو کر اسے کوڑے مارنے کی قسم کھائی تھی، اب وہ سزا زیادہ سمجھ کر پریشان تھے کہ اسے اتنے کوڑے ماروں تو زیادتی ہوتی ہے، نہ ماروں تو قسم ٹوٹتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی یہ مشکل بھی حل فرما دی کہ اتنے تنکوں کا مٹھا لے کر ایک دفعہ مار دو، جتنے کوڑے مارنے کی تم نے قسم کھائی تھی، اس سے تمھاری قسم پوری ہو جائے گی، قسم توڑنے کا گناہ نہیں ہو گا۔
➋ ”اَلضَّرُّ“ اور ”اَلضُّرُّ“ میں فرق یہ ہے کہ ضاد کے فتحہ کے ساتھ ”ضَرٌّ“ نفع کی ضد ہے، اس سے مراد کوئی بھی نقصان ہے، مالی ہو یا جانی یا کوئی اور، جبکہ ضاد کے ضمہ کے ساتھ ”ضُرٌّ“ سے مراد آدمی کی جسمانی بدحالی ہے، مثلاً بیماری، لا غری یا بڑھاپا وغیرہ۔ (اعراب القرآن از درویش)
➌ ایوب علیہ السلام نے شدید تکلیف دہ بیماری اور اموال و اولاد کی ہلاکت جیسے مصائب کی آزمائش میں جس طرح صبر کیا، پھر جس طرح انھوں نے اللہ کی جناب میں اپنی حالت زار کا ذکر کرکے اس کے ارحم الراحمین ہونے کے واسطے سے دعا کی اور جسے شرف قبولیت عطا ہوا، اس سے چند اسباق حاصل ہوتے ہیں۔ ایک یہ کہ شدید بیماری اور مال و اہل کی تباہی کے ساتھ آزمائش اللہ تعالیٰ کی رحمت تھی، اسی طرح اس پر صبر کی توفیق دینا، پھر دعا قبول فرما کر صحت سے نوازنا اور دگنے اہل و عیال عطا فرمانا، سب کچھ اللہ کی عظیم رحمت تھی۔ دوسرا یہ کہ اس میں عبادت گزار بندوں کے لیے یاد دہانی ہے کہ اگر اللہ کے بندوں کا مصائب کے ذریعے سے امتحان ہو اور وہ اس پر صبر کریں اور اللہ تعالیٰ ہی کی جناب میں اپنی فریاد پیش کریں تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے انعام ملتا ہے اور آدمی کے گمان سے بھی بہت زیادہ ملتا ہے۔ یہاں ” وَ ذِكْرٰى لِلْعٰبِدِيْنَ “ فرمایا، جبکہ سورۂ صٓ (۴۳) میں ” وَ ذِكْرٰى لِاُولِي الْاَلْبَابِ “ فرمایا، معلوم ہوا عبادت کرنے والے ہی عقل والے ہیں، جو بندگی نہیں کرتے وہ کتنے ہی ہوشیار نظر آئیں، عقل سے خالی ہیں۔ تیسرا یہ کہ آزمائش میں صبر اور اللہ تعالیٰ ہی سے بار بار رجوع اور استغاثہ و فریاد کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ایوب علیہ السلام کی تعریف میں تین جملے ارشاد فرمائے: (1) « اِنَّا وَجَدْنٰهُ صَابِرًا »”ہم نے اسے صبر کرنے والا پایا۔“(2) « نِعْمَ الْعَبْدُ »”وہ بہت اچھا بندہ تھا۔“(3) « اِنَّهٗۤ اَوَّابٌ »”یقینا وہ بہت رجوع کرنے والا تھا۔“ اس سے معلوم ہوا کہ آزمائش میں کامیابی پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے شاباش بھی ملتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ تحسین و آفرین ایوب علیہ السلام کے حق میں بہت ہی بڑی شہادت ہے۔
➍ دکتور محمد بن محمد ابو شہبہ رحمہ اللہ اپنی کتاب ” اَلْاِسْرَائِيْلِيَاتُ وَالْمَوْضُوْعَاتُ فِيْ كُتُبِ التَّفْسِيْرِ “ میں لکھتے ہیں کہ ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں اس آیت کے تحت فرمایا: ”وہب بن منبہ سے ایوب علیہ السلام کے واقعہ میں ایک لمبا قصہ روایت کیا گیا ہے، جسے ابن جریر نے اور ابن ابی حاتم نے سند کے ساتھ اس (وہب بن منبہ) سے نقل کیا ہے۔ بعد میں آنے والے کئی ایک مفسرین نے بھی اسے ذکر کیا ہے۔ اس واقعہ میں غرابت ہے، ہم نے لمبا ہونے کی وجہ سے اسے ترک کر دیا ہے۔“ ابوشہبہ فرماتے ہیں: ”عجیب بات یہ ہے کہ روایات پر نقد کرنے والے حافظ ابن کثیر بھی ایوب علیہ السلام کے واقعہ میں انھی باتوں میں پڑ گئے ہیں جن میں دوسرے حضرات پڑے ہوئے تھے۔ انھوں نے یہاں بہت سی اسرائیلیات ذکر فرمائی ہیں، جن پر کوئی تعاقب نہیں فرمایا، حالانکہ ان کے متعلق ہمارا مشاہدہ ہے کہ وہ ایسی جو بات بھی ذکر فرماتے ہیں اس کے بارے میں بتاتے ہیں کہ وہ کہاں سے آئی اور اسلامی روایات میں کیسے داخل ہوئی؟ میں نہیں سمجھتا کہ وہ ان روایات کو (بلانقد) بیان کرنا جائز سمجھتے ہوں۔ چنانچہ انھوں نے ذکر کیا ہے کہ کہا جاتا ہے کہ ”ان کے سارے بدن میں جذام (کوڑھ) ہو گیا اور ان کے دل اور زبان کے سوا کوئی چیز سلامت نہ رہی، جن کے ساتھ وہ اللہ عزو جل کا ذکر کرتے تھے۔ یہاں تک کہ پاس بیٹھنے والوں کو ان سے نفرت ہو گئی اور انھیں شہر کے ایک کونے میں الگ رہائش رکھنا پڑی۔ ان کی بیوی کے سوا ان پر شفقت کرنے والا کوئی نہ رہا، جس نے ان کی آزمائش کے دوران ناقابل بیان مصیبتیں اٹھائیں، حتیٰ کہ وہ محنت مزدوری کرنے لگیں، بلکہ انھوں نے اسی وجہ سے اپنے بال بھی فروخت کر دیے۔“ پھر ذکر فرماتے ہیں: ”بیان کیا جاتا ہے کہ وہ اس آزمائش میں بہت لمبی مدت تک مبتلا رہے۔ پھر اختلاف ہے کہ انھیں اس دعا کے لیے بے قرار کرنے کا باعث کیا تھا؟ چنانچہ حسن بصری اور قتادہ نے کہا، ایوب علیہ السلام سات سال اور کچھ مہینے آزمائش میں مبتلا رہے، اس عرصے میں انھیں کوڑا پھینکنے کی جگہ میں ڈال دیا گیا اور ان کے بدن میں کیڑے پڑ گئے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کی تکلیف دور فرمائی اور انھیں اجر عظیم عطا فرمایا اور ان کی بہت اچھی تعریف فرمائی۔ اور وہب بن منبہ نے کہا کہ آپ تین سال تکلیف میں مبتلا رہے، نہ زیادہ نہ کم۔ سدی نے کہا، ایوب علیہ السلام کا گوشت جھڑ گیا، صرف ہڈیاں اور پٹھے باقی رہ گئے۔“ پھر ایک لمبا قصہ ذکر کیا، پھر ابن کثیرنے وہ واقعہ ذکر فرمایا جو ابن ابی حاتم نے اپنی سند سے عن الزہری عن انس بن مالک روایت کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کے نبی ایوب علیہ السلام پر ان کی آزمائش اٹھارہ برس رہی۔ دور و نزدیک کے سب لوگوں نے انھیں چھوڑ دیا۔ ان کے دوستوں بھائیوں میں سے صرف دو آدمی صبح اور شام ان کے پاس آتے تھے۔ ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا، جانتے ہو! اللہ کی قسم! ایوب نے کوئی ایسا گناہ کیا ہے جو دنیا میں کسی نے نہیں کیا۔ ساتھی نے کہا، وہ کیا ہے؟ اس نے کہا، اٹھارہ سال ہوئے اللہ تعالیٰ نے اس پر رحم نہیں کیا کہ اس کی تکلیف دور کر دیتا۔ جب شام کو دونوں ان کے پاس گئے تو اس آدمی نے اس بات کا ذکر کر دیا۔ ایوب علیہ السلام نے کہا، مجھے معلوم نہیں تم کیا کہہ رہے ہو؟ ہاں یہ بات اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ میں دو آدمیوں کے پاس سے گزرتا جو جھگڑ رہے ہوتے، جس میں وہ اللہ کا ذکر کرتے تو میں گھر آ کر ان کی طرف سے کفارہ دے دیتا کہ کہیں وہ ناحق اللہ کا ذکر نہ کر رہے ہوں۔ اور وہ حاجت کے لیے باہر جایا کرتے تھے، جب فارغ ہو جاتے تو ان کی بیوی ہاتھ پکڑ کر لے آتی۔ ایک دن اس نے آنے میں دیر کی تو اسی جگہ اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی کی: « اُرْكُضْ بِرِجْلِكَ هٰذَا مُغْتَسَلٌۢ بَارِدٌ وَّ شَرَابٌ »[ صٓ: ۴۲ ]”اپنا پاؤں مار، یہ نہانے کا اور پینے کا ٹھنڈا پانی ہے۔“
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ایوب علیہ السلام کے قصے میں سب سے صحیح روایت وہ ہے جو ابن ابی حاتم اور ابن جریر نے بیان کی ہے اور ابن حبان اور حاکم نے اسے صحیح کہا ہے، پھر یہ روایت بیان کی۔ شیخ ناصر الدین البانی نے بھی اسے صحیح کہا ہے۔ (سلسلہ صحیحہ: ۱۷) مگر صحیح بات یہی ہے کہ یہ روایت صحیح نہیں۔ حافظ ابن حجر کے قول سے اس کا صحیح ہونا ثابت نہیں ہوتا، صرف دوسری روایتوں سے اس کا بہتر ہونا ثابت ہوتا ہے۔ اگر ان کی مراد اس حدیث کا صحیح ہونا ہو تب بھی ان کی بات محل نظر ہے۔ ابن کثیر نے ” اَلْبِدَايَةُ وَالنِّهَايَةُ “ میں ایوب علیہ السلام کے تذکرہ میں فرمایا: ”هٰذَا غَرِيْبٌ رَفْعُهُ جِدًّا وَالْأَشْبَهُ أَنْ يَّكُوْنَ مَوْقُوْفًا“”اس روایت کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہونا بہت ہی غریب ہے، زیادہ قریب یہی ہے کہ یہ صحابی کا قول ہے۔“ اس روایت کی تمام سندوں میں زہری کی روایت ”عن“ کے لفظ کے ساتھ آئی ہے اور زہری کا اپنی تمام تر عظمت وجلالت کے باوجود مدلس ہونا معروف و مشہور ہے۔ اس لیے صحیحین کے سوا ان کی تدلیس والی روایت کو صحیح نہیں کہا جا سکتا۔
ایوب علیہ السلام کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صرف ایک صحیح حدیث آئی ہے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ بَيْنَمَا أَيُّوْبُ يَغْتَسِلُ عُرْيَانًا خَرَّ عَلَيْهِ رِجْلُ جَرَادٍ مِنْ ذَهَبٍ فَجَعَلَ يَحْثِيْ فِيْ ثَوْبِهِ فَنَادَاهُ رَبُّهُ يَا أَيُّوْبُ! أَلَمْ أَكُنْ أَغْنَيْتُكَ عَمَّا تَرَی؟ قَالَ بَلٰی يَا رَبِّ! وَلَكِنْ لَا غِنَی لِيْ عَنْ بَرَكَتِكَ ][بخاري، أحادیث الأنبیاء، باب قول اللّٰہ تعالٰی: «و أیوب إذ نادی ربہ…»: ۳۳۹۱ ]”ایوب علیہ السلام کپڑے اتار کر غسل کر رہے تھے، غسل کے دوران ہی ان پر سونے کی ٹڈیوں کا ایک دَل (لشکر) آ گرا۔ ایوب علیہ السلام لپوں کے ساتھ اسے اپنے کپڑے میں بھرنے لگے تو انھیں ان کے رب نے آواز دی: ”اے ایوب! کیا میں نے تمھیں اس سے غنی نہیں کر دیا جو تم دیکھ رہے ہو؟“ انھوں نے عرض کی: ”کیوں نہیں، تیری عزت کی قسم! لیکن میرے لیے تیری برکت سے کسی طرح بے پروائی ممکن نہیں۔“
اس کے علاوہ ایوب علیہ السلام کے متعلق تمام اقوال تابعین یا صحابہ سے مروی ہیں اور سب وہب بن منبہ کے بیان ہی کا خلاصہ یا تفصیل ہیں، جو صاف ظاہر ہے کہ بنی اسرائیل سے لیے گئے ہیں۔ حقیقت صرف وہی ہے جو اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائی ہے اور جس کا خلاصہ اس آیت کے فائدہ نمبر (۱) میں گزر چکا ہے۔ کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان پر اپنے پاس سے یا ان اہلِ کتاب سے لے کر اضافہ کرے جنھوں نے انبیاء پر تہمتیں باندھیں، بلکہ انھوں نے اللہ تعالیٰ کو بھی نہیں بخشا اور کہہ دیا کہ اللہ فقیر ہے اور ہم غنی ہیں۔ دیکھیے سورۂ آل عمران (۱۸۱) اور یہ کہ اللہ کا ہاتھ بندھا ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: « غُلَّتْ اَيْدِيْهِمْ وَ لُعِنُوْا بِمَا قَالُوْا »[ المائدۃ: ۶۴ ]”انھی کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں اور ان کی باتوں کی وجہ سے ان پر لعنت کی گئی ہے۔“
➎ ابوشہبہ فرماتے ہیں، ہمیں جو عقیدہ رکھنا واجب ہے وہ یہ ہے کہ ایوب علیہ السلام کی آزمائش یقینا ہوئی، ان پر جسم اور اہلِ مال کی شدید تکلیف آئی، جس پر انھوں نے ایسا صبر کیا کہ صبر میں ضرب المثل بن گئے اور اللہ تعالیٰ نے بھی اس پر ان کی تعریف فرمائی، مگر ان کی آزمائش اس حد تک نہیں پہنچی جو ان جھوٹی داستانوں میں بیان ہوئی ہے کہ انھیں جذام (کوڑھ) ہو گیا، ان کے سارے جسم پر پھوڑے بن گئے، انھیں کوڑے کے ڈھیر پر پھینک دیا گیا۔ ان کے جسم میں کیڑے رینگتے پھرتے تھے اور ہڈیوں اور پٹھوں کے سوا سارا گوشت جھڑ گیا تھا اور ان سے دور ہی سے بدبو آتی تھی وغیرہ۔ ایوب علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے ہاں اس سے کہیں معزز ومکرم تھے کہ انھیں کوڑے پر پھینک دیا جائے، یا وہ ایسے مرض میں مبتلا ہوں جس سے لوگ ان کی دعوت سے متنفر ہوں۔ اللہ کا پیغام پہنچانے والا ہی اس قدر معیوب حالت میں ہو تو ایسی دعوت کا کیا فائدہ اور اس سے حاصل کیا ہو گا؟ پھر انبیاء ہمیشہ اپنی قوم کے اونچے نسب میں سے مبعوث کیے جاتے رہے ہیں (جیسا کہ حدیثِ ہرقل میں ہے)۔ ایوب علیہ السلام کی ایسی حالت میں ان کا قبیلہ کہاں تھا کہ ان کی حفاظت کرتا، ان کے کھانے پینے کا بندوبست کرتا، بجائے اس کے کہ ان کی بیوی لوگوں کے گھروں میں کام کرے، بلکہ اپنے سر کے بال فروخت کرتی پھرے اور ان پر ایمان لانے والے کہاں گئے، کیا سب انھیں چھوڑ گئے، کیا ایمان کا تقاضا یہی ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ اس قسم کی ساری داستانیں بے بنیاد ہیں، نہ عقل سلیم انھیں تسلیم کرتی ہے اور نہ صحیح نقل۔ ایوب علیہ السلام پر آنے والی بیماری ایسی ہر گز نہ تھی جس سے نفرت پیدا ہو، کیونکہ یہ ان کے منصب ہی کے خلاف تھا، بلکہ وہ اس قسم کی کوئی بیماری تھی جس کا جسم پر کوئی نشان ظاہر نہیں ہوتا، مثلاً کوئی جسمانی درد، ریوماٹزم، جوڑوں یا ہڈیوں وغیرہ کی تکلیف۔ جب اللہ کا فضل ہوا تو زمین پر پاؤں مارنے کے نتیجے میں نمودار ہونے والے چشمے کا ٹھنڈا پانی پینے اور اس کے ساتھ غسل کرنے سے مکمل شفایاب ہو گئے۔ قاضی ابوبکر ابن العربی رحمہ اللہ کی بات دل کو بہت لگتی ہے، وہ فرماتے ہیں: ”ایوب علیہ السلام کے معاملے میں کوئی بات ثابت نہیں سوائے اس کے جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنی کتاب میں دو مقامات پر بتائی ہے، ایک: « وَ اَيُّوْبَ اِذْ نَادٰى رَبَّهٗۤ اَنِّيْ مَسَّنِيَ الضُّرُّ »[ الأنبیاء: ۸۳ ] اور دوسری: « رَبَّهٗۤ اَنِّيْ مَسَّنِيَ الشَّيْطٰنُ بِنُصْبٍ وَّ عَذَابٍ »[ صٓ: ۴۱ ] رہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ! تو آپ سے اس حدیث کے سوا ایوب علیہ السلام کے متعلق ایک حرف بھی ثابت نہیں جس میں ان پر غسل کے دوران سونے کی ٹڈیاں گرنے کا ذکر ہے۔ پھر جب اس کے سوا قرآن اور حدیث میں کوئی بات ثابت ہی نہیں تو وہ کون صاحب ہیں جنھوں نے ایوب علیہ السلام کا حال آنکھوں سے دیکھا یا کانوں سے سنا؟ رہی اسرائیلی روایات! تو وہ علماء کے نزدیک قطعی طور پر متروک ہیں، اس لیے ان کے پڑھنے سے اپنی نگاہیں بچا کر رکھو اور ان کے سننے سے اپنے کان بند رکھو۔ کیونکہ وہ تمھاری سوچ میں محض خیال کا اور دل میں صرف خرابی کا اضافہ کریں گی۔ ابن عباس رضی اللہ عنھما نے فرمایا: [ يَا مَعْشَرَ الْمُسْلِمِيْنَ! كَيْفَ تَسْأَلُوْنَ أَهْلَ الْكِتَابِ؟ وَكِتَابُكُمُ الَّذِيْ أُنْزِلَ عَلٰی نَبِيِّهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحْدَثُ الْأَخْبَارِ بِاللّٰهِ تَقْرَؤُوْنَهٗ لَمْ يُشَبْ، وَقَدْ حَدَّثَكُمُ اللّٰهُ أَنَّ أَهْلَ الْكِتَابِ بَدَّلُوْا مَا كَتَبَ اللّٰهُ وَغَيَّرُوْا بِأَيْدِهِمُ الْكِتَابَ فَقَالُوْا: « هٰذَا مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ لِيَشْتَرُوْا بِهٖ ثَمَنًا قَلِيْلًا »[البقرة: ۷۹] أَفَلاَ يَنْهَاكُمْ مَا جَاءَكُمْ مِنَ الْعِلْمِ عَنْ مُسَاءَلَتِهِمْ؟ وَلَا وَاللّٰهِ! مَا رَأَيْنَا رَجُلًا مِنْهُمْ قَطُّ يَسْأَلُكُمْ عَنِ الَّذِيْ أُنْزِلَ عَلَيْكُمْ ][ بخاري، الشھادات، باب لا یسأل أھل الشرک عن الشھادۃ وغیرھا: ۲۶۸۵ ]”اے مسلمانو کی جماعت! تم اہل کتاب سے کس طرح سوال کرتے ہو، جب کہ تمھاری کتاب، جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی گئی، اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والی خبروں میں سے سب سے تازہ ہے۔ تم اسے اس حال میں پڑھتے ہو کہ اس میں کوئی ملاوٹ نہیں کی گئی اور اللہ تعالیٰ نے تمھیں بتا دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو لکھا تھا اہلِ کتاب نے اسے بدل دیا اور انھوں نے اپنے ہاتھوں سے اللہ کی کتاب میں تبدیلی کر دی اور کہا کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے، تاکہ اس کے ساتھ بہت تھوڑی قیمت حاصل کریں۔ تو کیا تمھارے پاس جو علم آیا ہے وہ تمھیں ان سے سوال کرنے سے منع نہیں کرتا؟ نہیں! قسم ہے اللہ کی! ہم نے ان میں سے کسی آدمی کو کبھی تم سے اس کے متعلق سوال کرتے ہوئے نہیں دیکھا جو تم پر نازل کیا گیا ہے۔“ آخر میں ابوشہبہ نے آلوسی، طبری اور دوسرے علماء سے اس مفہوم کی عبارتیں نقل کی ہیں۔ ایوب علیہ السلام کے متعلق مزید دیکھیے سورۂ صٓ (۴۱ تا ۴۴)۔