(آیت 81) ➊ وَ لِسُلَيْمٰنَ الرِّيْحَ عَاصِفَةً: اللہ تعالیٰ نے پانی کو حکم دیا تو اس نے نوح علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کو چھوڑ کر ان کی ساری قوم کو غرق کر دیا۔ آگ کو حکم دیا تو وہ ابراہیم علیہ السلام پر برد و سلام بن گئی۔ داؤد علیہ السلام کے ساتھ تسبیح کے لیے پہاڑوں اور پرندوں کو مسخر کر دیا، فرمایا: « وَ سَخَّرْنَا مَعَ دَاوٗدَ الْجِبَالَ يُسَبِّحْنَ وَ الطَّيْرَ »[ الأنبیاء: ۷۹ ] مگر پانی یا آگ کو نوح یا ابراہیم علیھما السلام کے تابع فرمان نہیں کیا، نہ پہاڑوں یا پرندوں کو داؤد علیہ السلام کے حکم کا پابند کیا، مگر سلیمان علیہ السلام کا خاصہ یہ ہے کہ ہوا ان کے حکم کے تابع کر دی گئی، فرمایا: « تَجْرِيْ بِاَمْرِهٖۤ » کہ وہ اس کے حکم سے چلتی تھی۔
➋ ” عَاصِفَةً “ کا معنی ہے ”شَدِيْدَةُ الْهُبُوْبِ“ بہت سخت تیز چلنے والی ہوا۔ سورۂ ص میں فرمایا: « فَسَخَّرْنَا لَهُ الرِّيْحَ تَجْرِيْ بِاَمْرِهٖ رُخَآءً حَيْثُ اَصَابَ »[ صٓ: ۳۶ ]”تو ہم نے اس کے لیے ہوا کو تابع کر دیا، جو اس کے حکم سے بہت نرم چلتی تھی، جہاں کا وہ ارادہ کرتا تھا۔“ اور سورۂ سبا میں فرمایا: « وَ لِسُلَيْمٰنَ الرِّيْحَ غُدُوُّهَا شَهْرٌ وَّ رَوَاحُهَا شَهْرٌ »[ سبا: ۱۲ ]”اور (ہم نے) ہوا کو سلیمان کے (تابع کر دیا) پہلے پہر اس کا چلنا ایک ماہ کا تھا اور پچھلے پہر اس کا چلنا بھی ایک ماہ کا۔“ یہاں ایک سوال ہے کہ ایک جگہ اس کو تند و تیز بتایا، دوسری جگہ نہایت نرم؟ جواب اس کا یہ ہے کہ اس ہوا میں دونوں خوبیاں موجود ہوتی تھیں، تند و تیز اتنی کہ صبح کے وقت چند گھنٹوں میں ایک ماہ کا سفر طے کر لیتی، اسی طرح پچھلے پہر بھی چند گھنٹوں میں اتنا ہی سفر طے کر لیتی اور نرم اور ہموار اتنی کہ سلیمان علیہ السلام اور ان کے ہمراہیوں کو کوئی تکلیف یا جھٹکا محسوس نہ ہوتا۔
➌ تَجْرِيْ بِاَمْرِهٖۤ اِلَى الْاَرْضِ الَّتِيْ بٰرَكْنَا فِيْهَا: قرآن مجید میں ارضِ مبارک شام کو کہا گیا ہے۔ دیکھیے سورۂ بنی اسرائیل۔ اس آیت میں سلیمان علیہ السلام کے اپنے کسی بھی سفر سے ان کے دار الحکومت شام کی طرف واپسی کا ذکر ہے، کیونکہ بعض اوقات آدمی سفر میں جاتے ہوئے بہت دور پہنچ جاتا ہے اور واپسی اس کے لیے مشکل ہوتی ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہوا سلیمان علیہ السلام کے حکم سے ارض مبارک کی طرف چلتی تھی۔ رہا سلیمان علیہ السلام کا دوسرے مقامات کی طرف جانا، تو اس کا ذکر سورۂ ص (۳۶) میں ہے کہ ہوا ان کے حکم سے اسی طرف چل پڑتی تھی جہاں ان کا ارادہ ہوتا، جیسا کہ پچھلے فائدے میں گزرا ہے۔
➍ ہوا کو سلیمان علیہ السلام کے لیے مسخر کرنے سے کیا مراد ہے؟ بعض مفسرین نے اس سے ہوا کا ان کے بحری بیڑوں کے موافق چلنا مراد لیا ہے، کیونکہ اس زمانے میں بحری جہازوں کا چلنا موافق ہوا پر موقوف تھا۔ یہ حضرات بائبل کا حوالہ دیتے ہیں۔ بعض تابعین نے کہا کہ سلیمان علیہ السلام اور ان کی افواج لکڑی کے بہت لمبے چوڑے چبوترے پر بیٹھ جاتے تو سلیمان علیہ السلام کے حکم سے ہوا انھیں اٹھا کر ان کی منزل مقصود کی طرف چل پڑتی۔ بعض نے اس طرح کے ایک مربع میل قالین کا ذکر کیا ہے۔ ظاہر ہے ان میں سے کوئی صاحب بھی موقع پر موجود نہیں تھا اور نہ انھوں نے اپنی معلومات کا کوئی ذریعہ بیان کیا ہے۔ رہی بائبل، تو اس کی حیثیت مقدمے میں تفصیل سے بیان ہو چکی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورۂ ص میں ذکر فرمایا ہے کہ سلیمان علیہ السلام نے دعا کی تھی: « رَبِّ اغْفِرْ لِيْ وَهَبْ لِيْ مُلْكًا لَّا يَنْۢبَغِيْ لِاَحَدٍ مِّنْۢ بَعْدِيْ »[ صٓ: ۳۵ ]”اے میرے رب! مجھے بخش دے اور مجھے ایسی بادشاہی عطا فرما جو میرے بعد کسی کے لائق نہ ہو۔“ اس دعا کو قبول کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ہوا ان کے تابع کر دی کہ ان کے حکم سے وہ جہاں کا ارادہ کرتے چل پڑتی تھی۔ آج کل انسان مہینوں کا سفر گھنٹوں میں ہوائی جہاز کے ذریعے سے طے کر رہا ہے، اگر سمندری سفر کی تیزی ہی مراد ہو تو یہ وہ سلطنت تو ہر گز نہیں جو سلیمان علیہ السلام کے بعد کسی کے لائق ہی نہیں۔ کیونکہ ہوائی جہاز سمندر ہی نہیں خشکی کو بھی عبور کرتے چلے جا رہے ہیں اور وہ تقریباً ہر ملک میں موجود ہیں۔ اس لیے ماننا پڑے گا کہ ان کے لیے ہوا کی وہ تسخیر ہوائی جہازوں اور اس قسم کے آلات کی محتاج نہ تھی، بلکہ وہ اس سے بہت اعلیٰ چیز تھی جس کی بدولت وہ ہوا کے ذریعے سے سمندروں اور خشکی پر مہینوں کا سفر گھنٹوں میں طے کرتے ہوئے جہاں چاہتے چلے جاتے تھے۔ اس کی تفصیل اگر انسان کی سمجھ میں آ سکتی یا اس کی ضرورت ہوتی تو اللہ تعالیٰ بیان فرما دیتا، ہمیں اتنا ہی کافی ہے جو اللہ تعالیٰ نے بیان فرما دیا۔
➎ وَ كُنَّا بِكُلِّ شَيْءٍ عٰلِمِيْنَ: یہ اس سوال کا جواب ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ تند و تیز ہوا نہایت نرمی سے چلتی ہوئی سلیمان علیہ السلام کو لے کر مہینوں کا سفر پہروں میں طے کر لے؟ فرمایا، ہم ہمیشہ سے ہر چیز کا علم رکھتے ہیں اور ہمارے لیے یہ کوئی انوکھی بات نہیں ہے۔