(آیت 70) وَ اَرَادُوْا بِهٖ كَيْدًا …: ” الْاَخْسَرِيْنَ “ اگرچہ اسم تفضیل ہے، مگر یہاں کسی سے زیادہ خسارا اٹھانے والے مراد نہیں، بلکہ یہ خاسرین میں مبالغہ ہے، اس لیے ترجمہ ”انتہائی خسارے والے“ کیا گیا ہے۔ اگر تفضیل کا معنی لیں تو ”أَخْسَرِيْنَ مِنْ كُلِّ خَاسِرٍ“ مراد ہو گا، یعنی ہر خسارے والے سے زیادہ خسارے والے۔ ” كَيْدًا “ خفیہ تدبیر کو کہتے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ کفار نے ابراہیم علیہ السلام کو جلانے کی سازش ان سے خفیہ رکھی تھی۔ شاید ان کا مقصد یہ ہو کہ ابراہیم علیہ السلام ہاتھ سے نہ نکل جائیں۔ (ابن عاشور)” فَجَعَلْنٰهُمُ الْاَخْسَرِيْنَ “ میں ”هُمْ“ اور ” الْاَخْسَرِيْنَ “ دونوں کے معرفہ ہونے سے قصر کا فائدہ حاصل ہوتا ہے کہ بس وہی انتہائی خسارے والے ہوئے، ابراہیم علیہ السلام کو ذرہ بھر خسارا نہیں ہوا۔ انھیں خسارے والے (ناکام) اس لیے قرار دیا کہ وہ ابراہیم علیہ السلام کی کسی بھی دلیل کا جواب نہ دے سکے جس کے ساتھ انھوں نے سورج، چاند اور ستاروں کو بے بس ثابت کیا، یا جس کے ساتھ انھوں نے بادشاہ کا بے اختیار ہونا ثابت کیا، یا بتوں کا معبود نہ ہونا ثابت کیا۔ پھر نہ ان سے بت توڑنے کا انتقام لے سکے اور نہ انھیں آگ میں جلا سکے، بلکہ وہ سب کچھ جو انھوں نے انھیں سزا دینے کے لیے تیار کیا تھا ان کے لیے معجزہ اور ان کی عظمتِ شان کا باعث بن گیا اور انتہائی خسارا یہ کہ اس واقعہ کے بعد اس قوم پر اللہ تعالیٰ کا عذاب آ گیا، جیسا کہ سورۂ حج میں ان قوموں کا ذکر فرمایا جن پر اللہ کا عذاب آیا، تو ان میں قوم ابراہیم کا بھی ذکر ہے، آخر میں فرمایا: « فَاَمْلَيْتُ لِلْكٰفِرِيْنَ ثُمَّ اَخَذْتُهُمْ فَكَيْفَ كَانَ نَكِيْرِ »[ الحج: ۴۴ ]”تو میں نے ان کافروں کو مہلت دی، پھر میں نے انھیں پکڑ لیا تو میرا عذاب کیسا تھا؟“