(آیت 64)فَرَجَعُوْۤا اِلٰۤى اَنْفُسِهِمْ …: ابراہیم علیہ السلام کی اس زبردست چوٹ نے انھیں سوچنے پر مجبور کر دیا۔ سب نے اپنے دل میں غور کیا تو کہہ اٹھے کہ تم اس جوان کو خواہ مخواہ ظالم کہہ رہے ہو، ظالم تو تم خود ہو جو ایسی بے حقیقت چیزوں کو اپنا معبود قرار دے کر پوجتے پکارتے اور انھیں اپنا حاجت روا اور مشکل کشا قرار دیتے ہو، جن کی بے بسی اور بے چارگی کا حال یہ ہے کہ وہ خود اپنے اوپر آنے والی مصیبت کو بھی دفع نہیں کر سکتے۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ وہ اپنے آپ پر گزری ہوئی مصیبت کسی دوسرے کے سامنے بیان بھی نہیں کر سکتے، تو پھر اس سے بڑھ کر ظلم اور حماقت کیا ہو سکتی ہے؟ سچ فرمایا اللہ تعالیٰ نے: « اِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيْمٌ »[ لقمان: ۱۳ ]”بے شک شرک یقینا بہت بڑا ظلم ہے۔“ بعض نے یہ مطلب بیان کیا ہے کہ تم ہی ظالم ہو کہ تم نے اپنے بتوں کی حفاظت کا خاطر خواہ بندوبست نہیں کیا، مگر پہلا معنی ہی صحیح اور مقام کے مناسب ہے۔