تفسير ابن كثير



تفسیر القرآن الکریم

(آیت 57) وَ تَاللّٰهِ لَاَكِيْدَنَّ اَصْنَامَكُمْ …: ابراہیم علیہ السلام نے زبان سے بتوں کی تردید کے بعد سمجھا کہ ان لوگوں کو زبانی سمجھانا کافی نہیں بلکہ ان کے دماغوں میں ان بتوں کی خدائی اور مشکل کشائی کا جما ہوا عقیدہ ختم کرنا ایک زبردست عملی کارروائی کے بغیر ممکن نہیں، جس سے ان کی بے بسی صاف واضح ہو جائے۔ چونکہ ان تک پہنچنا اور کارروائی کرنا آسان نہ تھا، تو اس کام کے لیے انھوں نے اس دن کا انتخاب فرمایا جب سب لوگوں کے جشن پر جانے سے کارروائی کا موقع مل سکتا تھا۔ دیکھیے سورۂ صافات (۸۸ تا ۹۰)۔

➋ ابراہیم علیہ السلام نے بتوں کے باطل ہونے کو عمل سے ثابت کرنے سے پہلے اللہ کی قسم کھا کر اپنے ارادے کا اعلان فرمایا۔ کچھ لوگ پختہ قبروں یا آستانوں اور بتوں کو خفیہ طریقے سے توڑ دیتے ہیں اور روپوش ہو جاتے ہیں اور اپنے اس عمل کو سنتِ ابراہیمی قرار دیتے ہیں، لیکن اگر واقعی وہ سنت ابراہیمی کے پیروکار ہیں تو انھیں چاہیے کہ اعلان کرکے یہ کام کریں، تاکہ اس کے نتیجے کے ذمہ دار بھی خود بنیں اور ابراہیم علیہ السلام جیسی استقامت دکھائیں۔ یہ نہیں کہ کرے کوئی اور بھرے کوئی۔

➌ بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام نے یہ بات دل میں کہی۔ بعض نے لکھا ہے کہ جب سب لوگ چلے گئے تو انھوں نے ایک آدھ آدمی کی موجودگی میں یہ بات کہی۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ سب اسرائیلیات ہیں۔ قرآن مجید نے صاف الفاظ میں ان کے اپنے والد اور قوم کے سامنے یہ بات کہنے کا ذکر فرمایا ہے۔ مگر قوم کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے، اس لیے انھوں نے اس کی پروا نہیں کی۔



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.