(آیت 48) ➊ وَ لَقَدْ اٰتَيْنَا مُوْسٰى وَ هٰرُوْنَ …: سورت کے شروع سے توحید، نبوت اور قیامت پر بات چلی آ رہی ہے، اب چند انبیاء کے واقعات کا آغاز ہوتا ہے۔ مقصد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دینا ہے کہ ان انبیاء کی طرح آپ بھی پوری تن دہی سے دعوت کا فریضہ سرانجام دیتے رہیں اور اس راہ میں آنے والی ہر مشکل میں صبر و استقامت سے کام لیں، اس کے علاوہ اس بات کی تفصیل ہے کہ پہلے تمام انبیاء بشر تھے۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے موسیٰ اور ہارون علیھما السلام کا ذکر فرمایا۔ قرآن مجید میں اکثر موسیٰ علیہ السلام اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اور دونوں کی کتابوں کا ذکر اکٹھا آتا ہے، کیونکہ دعوت کے ساتھ جہاد کا سلسلہ موسیٰ علیہ السلام سے شروع ہوتا ہے اور دعوت کے سلسلے میں دونوں کے درمیان بڑی مماثلت ہے۔
➋ الْفُرْقَانَ وَ ضِيَآءً وَّ ذِكْرًا لِّلْمُتَّقِيْنَ: ” الْفُرْقَانَ “ اور ” اَلْفَرْقُ “ کا معنی ایک ہی ہے، الف اور نون کی وجہ سے معنی میں مبالغہ پیدا ہو گیا ہے، یعنی حق و باطل کے درمیان خوب فرق کرنے والی چیز۔ اس سے مراد تورات بھی ہے، معجزے اور جادو کے درمیان فرق کرنے والے معجزے بھی اور موسیٰ اور ہارون علیھما السلام اور بنی اسرائیل کو فرعونیوں پر حاصل ہونے والی فتح و نصرت بھی، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے یوم بدر کو یوم الفرقان قرار دیا۔ گویا ” الْفُرْقَانَ “ کتاب، معجزات اور نصرتِ الٰہی تینوں کی صفت ہو سکتی ہے، کیونکہ تینوں ہی حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والی چیز ہیں۔ اسی طرح ” ضِيَآءً “ اور ” ذِكْرًا لِّلْمُتَّقِيْنَ “ بھی تینوں کی صفت ہیں، کیونکہ تورات، معجزات اور نصرتِ الٰہی تینوں حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والی بھی ہیں، ایمان کی روشنی بھی ہیں اور نصیحت بھی۔ مگر کتاب، معجزات اور نصرتِ الٰہی کے مشاہدے سے حق و باطل کے درمیان فرق، ایمان کی روشنی اور نصیحت اسی کو نصیب ہوتی ہے جو متقی ہو۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ بقرہ کی آیت (۲) کی تفسیر۔