(آیت 47) ➊ وَ نَضَعُ الْمَوَازِيْنَ الْقِسْطَ …: پچھلی آیات میں ذکر ہوا ہے کہ کفار کے پاس جب تک قدرت رہتی ہے وہ عدل و انصاف سے کنارہ کش اور ظلم و جور پر تلے رہتے ہیں اور اختیار ختم ہوتے ہی حق کا اعتراف کرنے لگتے ہیں، اس آیت میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا معاملہ اس طرح نہیں، وہ ہمیشہ ”قَائِمًا بِالْقِسْطِ“ انصاف پر قائم ہے، حتیٰ کہ قیامت کے دن بھی وہ انصاف کے ترازو قائم فرمائے گا، پھر کسی جان پر کچھ ظلم نہیں ہو گا۔ (بقاعی)
➋ ” الْمَوَازِيْنَ “”مِيْزَانٌ“ کی جمع ہے۔ ” الْقِسْطَ “ مصدر ہے جو اسم فاعل”مُقْسِطٌ“ کے معنی میں ہے اور ” الْمَوَازِيْنَ “ کی صفت ہے، جیسے مبالغے کے لیے عادل آدمی کو ”رَجُلٌ عَدْلٌ“ کہہ لیتے ہیں، یعنی اتنا عادل آدمی کہ سراپا عدل ہے۔ یعنی ہم ایسے ترازو رکھیں گے جو اتنے انصاف والے ہیں گویا عین انصاف ہیں۔ موصوف واحد ہو یا تثنیہ یا جمع، مذکر ہو یا مؤنث، اگر اس کی صفت مصدر ہو تو وہ سب کے لیے ایک جیسی ہوتی ہے۔ ” الْقِسْطَ “ مفعول لہ بھی ہو سکتا ہے، یعنی ہم انصاف کے لیے بہت سے ترازو رکھیں گے۔
➌ ” الْمَوَازِيْنَ “ سے معلوم ہوا کہ قیامت کے دن متعدد ترازو ہوں گے، جن کے ساتھ اعمال کا وزن کیا جائے گا، پھر یا تو ہر آدمی کے لیے الگ ترازو ہو گا یا ہر عمل کے لیے۔ نیز دیکھیے سورۂ اعراف (۷)۔
➍ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَيْـًٔا:”پھر کسی شخص پر کچھ ظلم نہیں کیا جائے گا“ یعنی نہ نیکیوں میں کچھ کمی آئے گی اور نہ برائیوں میں کوئی اضافہ ہو گا۔
➎ وَ اِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ …: اس کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورۂ زلزال (۷، ۸) اور لقمان (۱۶)۔
➏ وَ كَفٰى بِنَا حٰسِبِيْنَ: ہم حساب لینے والے کافی ہیں، ہمیں کسی مدد گار کی ضرورت نہیں، پھر نہ ہمارے حساب کے بعد کسی پڑتال کی گنجائش ہے اور نہ کہیں اپیل ہو سکتی ہے۔