(آیت 37) ➊ خُلِقَ الْاِنْسَانُ مِنْ عَجَلٍ: کسی چیز کے وقت سے پہلے اس کا ارادہ عجلہ (جلد بازی) ہے، یعنی جلد بازی انسان کی فطرت میں شامل ہے، وہ پیدا ہی جلد باز کیا گیا، جیسا کہ فرمایا: « وَ كَانَ الْاِنْسَانُ عَجُوْلًا »[ بني إسرائیل: ۱۱ ]”اور انسان ہمیشہ سے بہت جلد باز ہے۔“”جلد بازی سے پیدا کیا گیا ہے“ سے مراد مبالغہ ہے، جیسے فرمایا: « اَللّٰهُ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ مِّنْ ضُؔعْفٍ »[ الروم: ۵۴ ]”اللہ وہ ہے جس نے تمھیں ضعف سے پیدا کیا۔“
➋ سَاُورِيْكُمْ اٰيٰتِيْ فَلَا تَسْتَعْجِلُوْنِ: ” فَلَا تَسْتَعْجِلُوْنِ“ اصل میں ”فَلَا تَسْتَعْجِلُوْنِيْ“ ہے۔ آیات کے آخری حروف کی موافقت کے لیے نون پر کسرہ باقی رکھ کر ”یاء“ حذف کر دی گئی۔ اس آیت کی تفسیر دو طرح سے کی گئی ہے، ایک یہ کہ کفار کی شدید مخالفت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مذاق اڑانے پر مسلمان سخت غم زدہ اور پریشان تھے اور کفار پر جلد از جلد عذاب کے منتظر تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس عمل کو جلد بازی قرار دے کر تسلی دی کہ میں تمھیں اپنی نشانیاں ضرور دکھاؤں گا، مگر ہر کام کا ایک وقت مقرر ہے، اس سے پہلے اس کا مطالبہ مت کرو۔ نشانیوں سے مراد کفار پر آنے والی آفات و مصائب ہیں، مثلاً بدر، احد، خندق، حدیبیہ اور فتح مکہ میں کفار کی شکست اور ان کے اقتدار کا خاتمہ۔ اس مطلب کا قرینہ یہ ہے کہ کفار کے عذاب جلدی لانے کے مطالبے کا ذکر اگلی آیت میں ہے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ انسان کی سرشت میں جلد بازی ہے، وہ کسی سے ناراض ہو اور اس کے پاس طاقت ہو تو وہ فوراً انتقام لیتا ہے۔ اپنی اس سرشت کے مطابق انھوں نے اللہ تعالیٰ کے متعلق بھی یہ خیال کیا کہ اگر اس کے پاس انتقام کی طاقت ہوتی تو وہ فوراً عذاب نازل کر دیتا، چنانچہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مذاق اڑاتے اور عذاب میں دیر کی وجہ سے بار بار اس کے جلد لانے کا مطالبہ کرتے۔ فرمایا، تم عذاب کے جلدی آنے کا مطالبہ کیوں کرتے ہو؟ اب تک جو ہم نے تمھیں ڈھیل دی ہے اس میں ہماری کئی حکمتیں ہیں، جن میں سے تم پر حجت پوری کرنا اور تم میں سے کئی لوگوں کا اسلام قبول کرنا بھی ہے۔ اس سے تم نے یہ کیسے سمجھ لیا کہ ہمیں تمھاری کارستانیاں اور شرارتیں گوارا ہیں؟ ذرا ٹھہرو! ابھی تمھیں معلوم ہو جائے گا کہ ہم تم سے کیسے انتقام لیتے ہیں۔ دنیا میں بھی قتل ہو گے اور ذلت و رسوائی برداشت کرنا پڑے گی اور آخرت میں بھی تمھیں جہنم کی آگ کا ایندھن بنایا جائے گا۔