(آیت 34) ➊ وَ مَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِّنْ قَبْلِكَ الْخُلْدَ: اس سے پہلے چار آیات میں خالق کائنات کے وجود اور اس کی توحید کے چھ دلائل بیان فرمائے۔ اب یہاں سے بیان فرمایا کہ یہ نظام ہمیشہ قائم رہنے کے لیے نہیں بلکہ امتحان اور آزمائش کے لیے بنایا گیا ہے۔ (کبیر)
➋ بقاعی نے پچھلی آیت کے ساتھ یہ مناسبت ذکر کی ہے کہ اس میں رات دن کے آنے جانے کا ذکر ہے، جس سے ہر انسان کی عمر کا سلسلہ آخر منقطع ہو جاتا ہے، اس لیے فرمایا کہ ہم نے آپ سے پہلے کسی بشر کے لیے ہمیشگی نہیں رکھی، خواہ نیک ہو یا بد۔ یہ آیت خضر علیہ السلام کے زندہ نہ ہونے کی بھی ایک بہت مضبوط دلیل ہے۔ رہے عیسیٰ علیہ السلام، تو ان کی عمر بہت طویل ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ انھیں ہمیشہ کی زندگی حاصل ہے، کیونکہ قیامت کے قریب زمین پر اترنے کے بعد انھوں نے بھی فوت ہونا ہے۔ [ بخاري، العلم، باب السمر في العلم: ۱۱۶، عن ابن عمر رضی اللہ عنھما ] وہ حدیث بھی اس کی صریح دلیل ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ فَإِنَّ رَأْسَ مِئَةِ سَنَةٍ مِنْهَا لَا يَبْقٰی مِمَّنْ هُوَ عَلٰی ظَهْرِ الْأَرْضِ أَحَدٌ ][ بخاري، في العلم، باب السمر فی العلم: ۱۱۶۔ مسلم: ۲۵۳۸ ]”جو لوگ آج زمین کی پشت پر موجود ہیں آج سے ایک سو سال کے سرے پر ان میں سے کوئی باقی نہیں رہے گا۔“
➌ اَفَاۡىِٕنْ مِّتَّ فَهُمُ الْخٰلِدُوْنَ: اس میں ان لوگوں کا جواب ہے جو یہ کہہ کر خوشی کا اظہار کیا کرتے تھے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم عنقریب مر جائیں گے تو ہماری جان چھوٹ جائے گی۔ دیکھیے سورۂ طور (۲۰) فرمایا، اس میں ان کے لیے خوشی کا موقع تو تب ہو جب انھیں ہمیشہ زندہ رہنا ہو۔