(آیت 22)لَوْ كَانَ فِيْهِمَاۤ اٰلِهَةٌ اِلَّا اللّٰهُ …: یعنی ان لوگوں نے تو زمین سے لے کر کئی معبود بنا رکھے ہیں، جب کہ زمین اور آسمان دونوں میں ایک اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، فرمایا: « وَ هُوَ الَّذِيْ فِي السَّمَآءِ اِلٰهٌ وَّ فِي الْاَرْضِ اِلٰهٌ وَ هُوَ الْحَكِيْمُ الْعَلِيْمُ »[ الزخرف: ۸۴ ]”اور وہی ہے جو آسمانوں میں معبود ہے اور زمین میں بھی معبود ہے اور وہی کمال حکمت والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔“ کیونکہ معبود برحق تو وہ ہے جو پوری قدرت اور مکمل اختیار رکھنے والا ہو اور کسی معاملے میں عاجز نہ ہو۔ اب اگر زمین و آسمان میں اللہ تعالیٰ کے سوا اور بھی قادر و مختار ہوتے تو کائنات کا یہ سلسلہ کبھی کا درہم برہم ہو چکا ہوتا۔ کیونکہ ان سب کی ہمیشہ کشمکش رہتی اور کوئی چیز اپنی مرتب شکل میں نہ بن سکتی اور نہ چل سکتی، جیسا کہ فرمایا: « مَا اتَّخَذَ اللّٰهُ مِنْ وَّلَدٍ وَّ مَا كَانَ مَعَهٗ مِنْ اِلٰهٍ اِذًا لَّذَهَبَ كُلُّ اِلٰهٍۭ بِمَا خَلَقَ وَ لَعَلَا بَعْضُهُمْ عَلٰى بَعْضٍ سُبْحٰنَ اللّٰهِ عَمَّا يَصِفُوْنَ »[ المؤمنون: ۹۱ ]”نہ اللہ نے (اپنی) کوئی اولاد بنائی اور نہ کبھی اس کے ساتھ کوئی معبود تھا، اس وقت ضرور ہر معبود، جو کچھ اس نے پیدا کیا تھا، اسے لے کر چل دیتا اور یقینا ان میں سے بعض بعض پر چڑھائی کر دیتا۔ پاک ہے اللہ اس سے جو وہ بیان کرتے ہیں۔“ اسی طرح ان میں سے ہر ایک اپنی قوت و اختیار منوانے کے لیے پوری کائنات کا اختیار حاصل کرنے کی کوشش کرتا اور عرش پر قبضے کی جدو جہد کرتا، نتیجہ پوری کائنات کی تباہی ہوتا، فرمایا: « قُلْ لَّوْ كَانَ مَعَهٗۤ اٰلِهَةٌ كَمَا يَقُوْلُوْنَ اِذًا لَّابْتَغَوْا اِلٰى ذِي الْعَرْشِ سَبِيْلًا »[ بني إسرائیل: ۴۲ ]”کہہ دے اگر اس کے ساتھ کچھ اور معبود ہوتے، جیسا کہ یہ کہتے ہیں تو اس وقت وہ عرش والے کی طرف کوئی راستہ ضرور ڈھونڈتے۔“
خلاصہ یہ کہ زمین و آسمان میں کسی فساد کا نہ ہونا اور پوری کائنات میں زبردست ترتیب اور ہم آہنگی کا ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ ان کا مالک اور انھیں چلانے والا ایک ہی ہے۔ یہ دلیل بہت زبردست، نہایت ہی سادہ اور آسانی سے سمجھ میں آنے والی ہے۔ ایک چھوٹے سے گھر کا نظام کبھی درست نہیں چل سکتا اگر اس کا ذمہ دار ایک نہ ہو اور نہ ایک مملکت میں دو فرماں روا رہ سکتے ہیں، تو اتنی بڑی کائنات کا نظام دو فرماں رواؤں کی صورت میں کیسے چل سکتا ہے؟ علمائے اسلام نے اس دلیل کی کئی طرح سے تشریح فرمائی ہے، میں ان میں سے صرف دو تشریحات نقل کرتا ہوں۔ ایک یہ کہ اگر ہم دو معبود فرض کریں تو کسی چیز کو حرکت دینے یا ساکن رکھنے میں اگر دونوں میں اختلاف ہو جائے تو یہ ناممکن ہے کہ دونوں کا ارادہ پورا ہو جائے اور یہ بھی ناممکن ہے کہ کسی کا ارادہ بھی پورا نہ ہو (کیونکہ پھر وہ قادر و مختار ہی کیا ہوئے؟) اگر صرف ایک کا ارادہ پورا ہو تو دوسرا عاجز ٹھہرا، جو کسی صورت معبود برحق نہیں ہو سکتا اور دونوں کے اختلاف کا ممکن ہونا اس کے واقع ہونے کے قائم مقام ہے۔ دوسری تشریح یہ ہے کہ عدم سے وجود میں آنے والا ہر جز ناممکن ہے کہ دو قدرتوں کے نتیجے میں پیدا ہو۔ جب وہ دونوں میں سے ایک کی قدرت سے وجود میں آیا، تو دوسرا زائد اور بے کار ٹھہرا، جس کا اس جز میں کوئی دخل نہیں۔ اسی طرح کائنات کے ہر جز اور ہر ذرے میں غور کرتے جائیں، نتیجہ صرف ایک قادر و مختار نکلے گا۔ [ ابن عطیہ فی المحرّر الوجیز ]