(آیت 21) ➊ اَمِ اتَّخَذُوْۤا اٰلِهَةً …:” اَمْ “ کسی جملہ استفہامیہ کے بعد آتا ہے، جو ہر مقام پر سیاق و سباق سے سمجھ میں آ رہا ہوتا ہے۔ یہاں پہلی آیات کو مدنظر رکھتے ہوئے مفسر بقاعی رحمہ اللہ نے فرمایا: ”کیا یہ لوگ جان چکے ہیں کہ آسمانوں اور زمین کی ہر ہستی اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہے اور اس میں اسی کا امر نافذ ہے اور یہ جان کر اپنی گمراہی سے باز آ چکے ہیں یا (جاننے کے باوجود اپنی ہٹ پر قائم ہیں اور) انھوں نے زمین سے کچھ معبود بنا لیے ہیں جو اکیلے زندگی کی روح پھونک سکتے ہیں؟ اگر ایسا نہیں اور یقینا نہیں تو پھر یہ ایسے بے چاروں کو معبود کیوں مان رہے ہیں؟“
➋ ” اٰلِهَةً مِّنَ الْاَرْضِ “ کا مطلب یہ ہے کہ ان کے بنائے ہوئے معبود سب زمین سے تعلق رکھتے ہیں، بت ہوں یا قبریں، درخت ہوں یا دریا، جانور ہوں یا انسان یاجن، مردہ داتا و دستگیر ہوں یا زندہ، سب اسی مٹی سے ہیں جو قدموں تلے روندی جاتی ہے۔ ان کی کوڑھ مغزی دیکھو کہ انھوں نے کس قدر بے وقعت ہستیوں کو اس رب کے ہوتے ہوئے حاجت روا اور مشکل کُشا بنا لیا جو زمین ہی کا نہیں عرش کا بھی رب ہے۔ اگلی آیت میں اسی مناسبت سے فرمایا: « فَسُبْحٰنَ اللّٰهِ رَبِّ الْعَرْشِ عَمَّا يَصِفُوْنَ »”سو پاک ہے اللہ جو عرش کا رب ہے، ان چیزوں سے جو وہ بیان کرتے ہیں۔“ جو زمین و آسمان دونوں کا مالک ہے اور دونوں میں اسی کی عبادت ہوتی ہے۔ دیکھیے سورۂ زخرف (۸۴، ۸۵)۔
➌ هُمْ يُنْشِرُوْنَ: ما وردی نے فرمایا: ”اس میں دو قول ہیں، ایک یہ کہ اس کا معنی ”يَخْلُقُوْنَ“ ہے، یعنی وہ پیدا کرتے ہیں، یہ قطرب کا قول ہے۔ دوسرا یہ کہ اس کا معنی ” يُحْيُوْنَ “ ہے، یعنی وہ دوبارہ زندہ کریں گے، یہ مجاہد کا قول ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ لفظ دونوں معنوں میں آتا ہے۔ پہلے معنی کی تائید سورۂ روم کی آیت (۲۰) سے ہوتی ہے اور دوسرے معنی کی سورۂ عبس کی آیت (۱۹) سے۔ مطلب یہ ہے کہ کیا انھوں نے کوئی ایسے معبود بنائے ہیں جو پہلی دفعہ پیدا کرتے ہیں یا دوبارہ زندہ کریں گے؟ یہ شان تو صرف اللہ تعالیٰ کی ہے، فرمایا: « وَ هُوَ الَّذِيْ يَبْدَؤُا الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيْدُهٗ وَ هُوَ اَهْوَنُ عَلَيْهِ »[ الروم: ۲۷]”اور وہی ہے جو خلق کو پہلی بار پیدا کرتا ہے، پھر اسے دوبارہ پیدا کرے گا اور وہ اسے زیادہ آسان ہے۔“ اس کے سوا کوئی نہ پیدا کر سکتا ہے اور نہ دوبارہ زندہ کر سکتا ہے۔ دیکھیے سورۂ فرقان (۳)۔
➍ هُمْ يُنْشِرُوْنَ: یعنی کیا ان کے کوئی ایسے معبود ہیں کہ وہی زندگی بخشتے ہیں اور دوبارہ بھی وہی زندہ کریں گے؟ یہ ان کے معبودوں سے مذاق ہے کہ ذرا ان کی اوقات تو دیکھو کہ اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں اکیلے ہی یہ سب کچھ کر رہے ہیں۔
➎ ابن جزی رحمہ اللہ نے ” مِنَ الْاَرْضِ “ کو ” يُنْشِرُوْنَ “ کے متعلق کیا ہے، اس صورت میں معنی یہ ہو گا کہ یا انھوں نے کوئی ایسے معبود بنا رکھے ہیں جو (لوگوں کو) زمین سے دوبارہ زندہ کریں گے۔