(آیت 20)يُسَبِّحُوْنَ الَّيْلَ وَ النَّهَارَ لَا يَفْتُرُوْنَ:” اَلْفُتُوْرُ “ کا معنی کسی کام سے رک جانا ہے، جیسا کہ فرمایا: « قَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلُنَا يُبَيِّنُ لَكُمْ عَلٰى فَتْرَةٍ مِّنَ الرُّسُلِ »[ المائدۃ: ۱۹ ]”بے شک تمھارے پاس ہمارا رسول آیا ہے، جو تمھارے لیے کھول کر بیان کرتا ہے، رسولوں کے ایک وقفے کے بعد۔“ یعنی فرشتے رات دن اللہ کی تسبیح کرتے ہیں، کبھی نہیں رکتے، وقفہ نہیں کرتے۔ یہاں ایک سوال ہے جو عبد اللہ بن حارث بن نوفل نے کعب احبار سے کیا کہ آپ بتائیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے متعلق فرمایا: « يُسَبِّحُوْنَ الَّيْلَ وَ النَّهَارَ لَا يَفْتُرُوْنَ » تو کیا انھیں آپس کی بات چیت، پیغمبروں کو وحی پہنچانا اور دوسرے کام تسبیح میں رکاوٹ نہیں بنتے؟ انھوں نے فرمایا: ”بیٹا! اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے تسبیح ایسے ہی کر دی ہے جیسے تمھارے لیے سانس لینا کر دیا ہے۔ کیا ایسا نہیں ہے کہ تم بات کرتے ہوئے سانس لیتے جاتے ہو اور چلتے ہوئے سانس لیتے رہتے ہو؟“[ طبری من طرق یقوي أحدھما الآخر، حکمت بن بشیر ] دن رات بغیر وقفے کے تسبیح سے مراد مبالغہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ بہت زیادہ تسبیح کرتے ہیں، جیسے کہتے ہیں کہ فلاں تمھاری ہر وقت تعریف کرتا ہے، یا میں دن رات تمھیں یاد کرتا ہوں وغیرہ۔ مفسر آلوسی نے اس توجیہ کی تعریف کی ہے۔ (روح المعانی) یا جس طرح ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنھا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق فرمایا: [ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَذْكُرُ اللّٰهَ عَلٰی كُلِّ أَحْيَانِهِ ][ مسلم، الحیض، باب ذکر اللہ في حال الجنابۃ وغیرھا: ۳۷۳ ]”آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے تمام اوقات میں اللہ کا ذکر کرتے تھے۔“ ظاہر ہے آپ اپنی انسانی ضروریات، دعوت و تبلیغ اور جہاد کے لیے بات بھی کرتے تھے، کھاتے پیتے اور سوتے بھی تھے، اس کے باوجود اللہ کی یاد سے دل غافل نہیں ہوتا تھا۔ یہ توجیہ کعب احبار کی توجیہ سے ملتی جلتی ہے۔