(آیت 17) ➊ لَوْ اَرَدْنَاۤ اَنْ نَّتَّخِذَ لَهْوًا …: یعنی بفرض محال اگر ہم اپنی دل لگی اور کھیل کے لیے کھیلنے کی کوئی چیز بناتے تو اپنے پاس بنا لیتے اور تمھیں اس کا پتا نہ چلنے دیتے، کیونکہ لہو و لعب تو نقص اور خامی کی بات ہے، اس لیے ہم اسے کسی کی نگاہ کے سامنے نہ آنے دیتے۔ تو یہ آسمان و زمین جو ہر وقت تمھارے سامنے ہیں، ہم کھیل اور دل لگی کے لیے کیسے بنا سکتے ہیں؟ یہ ساری بات بطور فرض ہے۔ اللہ تعالیٰ کس قدر رحیم و کریم ہے کہ اس نے انسان کی چھوٹی عقل کو سمجھانے اور ہر طرح سے مطمئن کرنے کے لیے اس کی ذہنی سطح کے مطابق بات کی ہے، ورنہ ممکن ہی نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس کا ارادہ کرے، کیونکہ لفظ ”لَوْ “ ہوتا ہی محال چیز کے بیان کے لیے ہے۔
➋ طبری نے صحیح سند کے ساتھ مجاہد سے ” لَاتَّخَذْنٰهُ مِنْ لَّدُنَّا “ کا معنی نقل کیا ہے کہ ہم اس لہو و لعب کو اپنے پاس بنا لیتے، نہ جنت اور جہنم پیدا کرتے اور نہ ہی موت اور قیامت۔ یعنی پھر زمین و آسمان، انسان، جن اوران کی جزا و سزا کے سلسلے کو پیدا کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ دیکھیے سورۂ مومنون (۱۱۵)، سورۂ صٓ (۲۷) اور سورۂ ملک (۲)۔