(آیت 11) ➊ وَ كَمْ قَصَمْنَا مِنْ قَرْيَةٍ كَانَتْ ظَالِمَةً: ”قَصْمٌ“ کا معنی کسی سخت چیز کو توڑنا ہے۔ کہا جاتا ہے: ”فُلاَنٌ قَصَمَ ظَهْرَ فُلاَنٍ “ کہ فلاں نے فلاں کی کمر توڑ دی۔ ”اِنْقَصَمَتْ سِنُّهُ“ فلاں کا دانت ٹوٹ گیا۔ ” كَمْ “ یہاں تکثیر کے لیے ہے، ”کتنی ہی بستیاں“ سے مراد بہت سی بستیاں ہیں، اس سے کوئی خاص بستی مراد نہیں۔ ابن عباس رضی اللہ عنھما کی طرف منسوب وہ روایت موضوع ہے جس میں ان سے نقل کیا گیا ہے کہ اس سے مراد یمن کے شہروں کے لوگ ہیں۔ [ الاستیعاب في بیان الأسباب ] آیت کے الفاظ کے مطابق بھی وہ بستیاں عام ہیں اور کوئی خاص علاقہ مراد نہیں۔
➋ وَ اَنْشَاْنَا بَعْدَهَا قَوْمًا اٰخَرِيْنَ: ” اَلإْنْشَاءُ“ کا معنی نئی چیز بنانا ہے۔ ” بَعْدَهَا “ بعض مقامات پر ” مِنْ بَعْدِهَا “ ہوتا ہے، اس میں کچھ دیر بعد مراد ہوتا ہے، یہاں ” بَعْدَهَا “ کا مطلب یہ ہے کہ ہم ان بستیوں کی ہلاکت کے بعد ساتھ ہی نئے سرے سے اور قومیں وہاں لے آئے۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت اور بعد والی آیات میں اپنا ذکر جمع کے صیغے سے کیا ہے۔ مراد اس سے اپنی عظمت کا اظہار ہے۔