(آیت 84) ➊ فَلَا تَعْجَلْ عَلَيْهِمْ: یعنی ایسا نہ کریں کہ جس طرح وہ شیاطین کے ابھارنے سے برائیوں میں جلدی کرتے ہیں کہ آپ بھی ان پر جلدی عذاب لانے کا مطالبہ کرنے لگیں، بلکہ صبر اور حوصلے سے انتظار کریں اور ان پر حجت پوری ہونے دیں۔ دیکھیے سورۂ احقاف (۳۵) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ اَلتَّأَنِّيْ مِنَ اللّٰهِ وَالْعَجَلَةُ مِنَ الشَّيْطَانِ ][ مسند أبی یعلٰی: ۴۲۵۶۔ السنن الکبرٰی للبیہقی: ۲۰۷۶۷۔ سلسلۃ الأحادیث صحیحۃ: 294/4،ح:۱۷۹۵، عن أنس رضی اللہ عنہ ]”اناۃ (بردباری، وقار، آہستہ روی) اللہ کی طرف سے ہے اور جلد بازی شیطان کی طرف سے ہے۔“
➋ اِنَّمَا نَعُدُّ لَهُمْ عَدًّا: آدمی کے اطمینان، صبر و ثبات اور خوشی کے لیے اس سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں ہو سکتی کہ اس کا سب سے زیادہ قوت والا مددگار مسلسل اس کے دشمن کی نگرانی کر رہا ہو اور نہ دشمن کے لیے اس سے بڑھ کر کوئی چیز پریشان کن ہو سکتی ہے۔ فرمایا، ہم تو بس ان کو دی ہوئی مہلت کا ایک ایک سانس گن رہے ہیں اور گنی ہوئی چیز نے آخر ختم ہونا ہے، پھر یہ کسی صورت بچ نہیں سکیں گے، تو پھر جلدی کیسی؟ دیکھیے سورۂ ہود (۸) روزوں کے جلدی گزرنے کی وجہ بھی ” اَيَّامًا مَّعْدُوْدَةٍ “ فرمائی۔ بعض سلف یہ آیت پڑھتے تو روتے اور کہتے کہ گنتی ختم ہونے کا نتیجہ تیری جان کا نکلنا ہے، تیرا قبر میں داخل ہونا اور تیرا اہل و عیال سے جدا ہونا ہے۔ ایک اور بزرگ نے فرمایا، ہر سانس جو تجھے زندگی بخش رہا ہے تیری زندگی کے سانسوں کی گنتی کم کرتا جا رہا ہے، پھر اس شخص کی زندگی کا کیا حال ہے جسے زندہ رکھنے والی چیز ہی اس کی زندگی کے زوال کا باعث ہے۔ ایک شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
إِنَّ الْحَبِيْبَ مِنَ الْأَحْبَابِ مُخْتَلَسٌ
لاَ يَمْنَعُ الْمَوْتَ بَوَّابٌ وَلَا حَرَسُ
وَكَيْفَ يَفْرَحُ بِالدُّنْيَا وَلَذَّتِهَا
فَتًي يُعَدُّ عَلَيْهِ اللَّفْظُ وَالنَّفَسُ
”ہر دوست اپنے دوستوں سے اچانک چھین لیا جانے والا ہے۔ موت کو کوئی دربان روک سکتا ہے نہ کوئی پہرے دار۔ دنیا اور اس کی لذت کے ساتھ کیسے خوش ہو سکتا ہے وہ جوان جس کا ایک ایک لفظ اور سانس گنا جا رہا ہو۔“(روح المعانی)