(آیت 77)اَفَرَءَيْتَ الَّذِيْ كَفَرَ بِاٰيٰتِنَا …: اوپر کی آیات میں حشر کے یقینی ہونے کے دلائل بیان فرمائے اور کفار کے شبہات کا جواب دیا تھا، اب ان لوگوں کا قول نقل فرمایا جو حشر میں طعن کرتے ہوئے اس کا مذاق اڑاتے تھے۔ صحیحین میں ہے، خباب بن ارت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: [كُنْتُ قَيْنًا فِي الْجَاهِلِيَّةِ وَكَانَ لِيْ عَلَی الْعَاصِ بْنِ وَائِلٍ دَيْنٌ فَأَتَيْتُهُ أَتَقَاضَاهٗ، قَالَ: لاَ أُعْطِيْكَ حَتّٰی تَكْفُرَ بِمُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ لاَ أَكْفُرُ حَتّٰی يُمِيْتَكَ اللّٰهُ ثُمَّ تُبْعَثَ، قَالَ دَعْنِيْ حَتّٰی أَمُوْتَ وَ أُبْعَثَ فَسَأُوْتیٰ مَالًا وَوَلدًا فَأَقْضِيْكَ فَنَزَلَتْ: « اَفَرَءَيْتَ الَّذِيْ كَفَرَ بِاٰيٰتِنَا وَ قَالَ لَاُوْتَيَنَّ مَالًا وَّ وَلَدًا (77) اَطَّلَعَ الْغَيْبَ اَمِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمٰنِ عَهْدًا » ][بخاری، البیوع، باب ذکر الفین والحداد: ۲۰۹۱۔ مسلم،: ۳۵، 2795/36 ]”میں زمانۂ جاہلیت میں لوہار کا کام کیا کرتا تھا اور میرا عاص بن وائل (ایک مال دار کافر) پر کچھ قرض تھا۔ میں (ایک دن) تقاضے کے لیے اس کے پاس گیا، وہ کہنے لگا: ”میں تمھارا قرض اس وقت تک ادا نہیں کروں گا جب تک تم محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی رسالت سے انکار نہ کرو۔“ خباب رضی اللہ عنہ نے کہا: ”اللہ کی قسم! میں (محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت سے) ہر گز انکار نہیں کروں گا، یہاں تک کہ اللہ تجھے موت دے، پھر دوبارہ زندہ کرے۔“ کافر کہنے لگا: ”جب میں مر کر دوبارہ زندہ ہوں گا تو تم میرے پاس آنا، اس وقت میرے پاس خوب مال بھی ہو گا اور اولاد بھی، میں تمھارا قرض ادا کروں گا۔“ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ (چار آیات ” فَرْدًا “ تک) نازل فرمائیں۔“ اس واقعہ میں کفار کا قیامت سے مذاق کی صورت میں انکار کرنا بھی ہے اور اس کے خیال میں بالفرض قائم ہونے کی صورت میں دنیا پر قیاس کرتے ہوئے وہاں بھی مال و اولاد ملنے کے یقین کا اظہار بھی ہے۔ ایک ہی سانس میں اللہ تعالیٰ کے قیامت قائم کرنے پر قادر ہونے سے انکار ہے اور اسی سانس میں قیامت کے دن اسے مال و اولاد دینے پر قادر ہونے کا اظہار ہے۔ مشرک ایسے ہی جاہل ہوتے ہیں۔ یہاں چونکہ زیادہ نمایاں قیامت کے دن دنیا کی طرح مال و اولاد ملنے کے یقین کا اظہار ہے، اس لیے اس سے پہلے آیات (۷۳، ۷۴) میں اس کا رد کیا ہے، اب مزید تین آیات میں اس کا رد فرمایا ہے۔