(آیت 62) ➊ لَا يَسْمَعُوْنَ فِيْهَا لَغْوًا اِلَّا سَلٰمًا: اہل ایمان کے لیے دنیا میں ایک شدید تکلیف لغو کلام سننا ہے، جسے وہ سننا نہیں چاہتے۔ اس تکلیف کا اندازہ اور اس سے بچے رہنے کی نعمت کی قدر صرف وہ لوگ کر سکتے ہیں جنھیں اس سے سابقہ پڑا ہو۔ جنت میں انھیں ایسی باتوں کے بجائے ہر وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے یا فرشتوں کی طرف سے یا ایک دوسرے کی طرف سے سلام کی آواز آئے گی۔ دیکھیے سورۂ یس (۵۸) اور سورۂ رعد (۲۳، ۲۴) یا ایسی بات سنائی دے گی جو ہر طرح کی تکلیف سے پاک اور سراسر سلامتی والی ہو گی، یعنی کوئی لغو یا تکلیف دہ بات ان کے کانوں میں نہیں پڑے گی۔
➋ بُكْرَةً وَّ عَشِيًّا: بظاہر معنی یہ ہے کہ اتنی دیر کے بعد جتنی دیر کے بعد دنیا میں صبح سے شام ہوتی ہے مگر یہ معنی راجح نہیں، کیونکہ اتنی دیر تو دنیا میں کھانے پینے سے صبر کرنا مشکل ہے، تو وہ جنت ہی کیا ہوئی جس میں صرف صبح و شام راشن ملے۔ اس لیے اس کا معنی ہر وقت اور ہمیشہ ہے، یعنی ہر وقت جب بھی انھیں کھانے کی یا لذت کی کسی بھی چیز کی خواہش ہو گی، کیونکہ جنت میں دنیا کی طرح کا نہ دن ہو گا اور نہ رات۔ صبح شام بول کر ہمیشگی مراد لینا صرف عربی ہی نہیں ہر زبان کا عام محاورہ ہے۔ خصوصاً اس لیے کہ جنتیوں کو ہر وہ چیز ملے گی جس کی انھیں خواہش ہو گی، خواہ کسی وقت خواہش ہو۔ دیکھیے سورۂ زخرف (۷۱)۔