(آیت 55) ➊ وَ كَانَ يَاْمُرُ اَهْلَهٗ بِالصَّلٰوةِ وَ الزَّكٰوةِ: اسماعیل علیہ السلام کے اس عمل کی پابندی کا حکم ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اور ان کے ذریعے سے ہمیں بھی دیا گیا، چنانچہ فرمایا: « وَ اْمُرْ اَهْلَكَ بِالصَّلٰوةِ وَ اصْطَبِرْ عَلَيْهَا لَا نَسْـَٔلُكَ رِزْقًا نَحْنُ نَرْزُقُكَ وَ الْعَاقِبَةُ لِلتَّقْوٰى »[ طٰہٰ: ۱۳۲ ]”اور اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دے اور اس پر خوب پابند رہ، ہم تجھ سے کسی رزق کا مطالبہ نہیں کرتے، ہم ہی تجھے رزق دیں گے اور اچھا انجام تقویٰ کا ہے۔“ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو آگ سے بچانے کا حکم دیا۔ دیکھیے سورۂ تحریم (۶)۔
➋ وَ كَانَ عِنْدَ رَبِّهٖ مَرْضِيًّا: رب تعالیٰ کے ہاں پسندیدہ ہونے کا باعث سب سے پہلے تو خود اس ذات پاک کاکسی کو منتخب فرما لینا ہے، جیسا کہ فرمایا: « اَللّٰهُ يَصْطَفِيْ مِنَ الْمَلٰٓىِٕكَةِ رُسُلًا وَّ مِنَ النَّاسِ » [ الحج: ۷۵ ]”اللہ فرشتوں میں سے پیغام پہنچانے والے چنتا ہے اور لوگوں سے بھی۔“ اور فرمایا: « اَللّٰهُ يَجْتَبِيْۤ اِلَيْهِ مَنْ يَّشَآءُ وَ يَهْدِيْۤ اِلَيْهِ مَنْ يُّنِيْبُ »[ الشورٰی: ۱۳ ]”اللہ اپنی طرف چن لیتا ہے جسے چاہتا ہے اور اپنی طرف راستہ اسے دیتا ہے جو رجوع کرے۔“ پھر اللہ تعالیٰ کے ہاں پسندیدہ (مَرْضِيًّا) ہونے کا ذریعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق کسی بندے کا فرائض کی ادائیگی اور نوافل کی کثرت ہے جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اس سے محبت کرنے لگتا ہے۔ [ دیکھیے بخاري، الرقاق، باب التواضع: ۶۵۰۲، عن أبي ھریرۃ رضی اللہ عنہ ] اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ إِذَا أَحَبَّ اللّٰهُ الْعَبْدَ نَادَی جِبْرِيْلَ إِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ فُلاَنًا فَأَحْبِبْهُ فَيُحِبُّهُ جِبْرِيْلُ فَيُنَادِيْ جِبْرِيْلُ فِيْ أَهْلِ السَّمَاءِ إِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ فُلَانًا فَأَحِبُّوْهُ فَيُحِبُّهُ أَهْلُ السَّمَاءِ ثُمَّ يُوْضَعُ لَهٗ الْقَبُوْلُ فِي الْاَرْضِ ][ بخاري، بدء الخلق، باب ذکر الملائکۃ صلوات اللّٰہ علیھم: ۳۲۰۹ ]”اللہ تعالیٰ جب کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو جبریل علیہ السلام کو آواز دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ فلاں سے محبت کرتا ہے سو تو بھی اس سے محبت کر، تو جبریل اس سے محبت کرتا ہے، پھر جبریل آسمان والوں میں اعلان کر دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ فلاں سے محبت کرتا ہے، تم بھی اس سے محبت کرو تو آسمان والے اس سے محبت کرتے ہیں، پھر اس کے لیے زمین میں قبولیت رکھ دی جاتی ہے۔“” مَرْضِيًّا “ کا حقیقی مصداق ایسا شخص ہوتا ہے۔