(آیت 51) ➊ وَ اذْكُرْ فِي الْكِتٰبِ مُوْسٰۤى اِنَّهٗ كَانَ مُخْلَصًا: ” مُخْلَصًا “ کا معنی ہے ”خالص کیا ہوا، چنا ہوا۔“ اس کی تائید اللہ تعالیٰ کے فرمان: « وَ اصْطَنَعْتُكَ لِنَفْسِيْ »[ طٰہٰ: ۴۱ ](اور میں نے تجھے خاص طور پر اپنے لیے بنایا ہے)، طٰہٰ کی آیت (۱۳) اور اعراف کی آیت (۱۴۴) سے ہوتی ہے۔
➋ وَ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِيًّا: ” رَسُوْلًا “ کا لفظی معنی بھیجا ہوا ہے اور ” نَبِيًّا “” نَبَأٌ “ سے ” فَعِيْلٌ “ کے وزن پر ہے جو فاعل اور مفعول دونوں معنوں میں آتا ہے۔ مفعول ہو تو وہ جسے اللہ کی طرف سے خبر دی جائے اور اگر فاعل ہو تو وہ جو اللہ کی طرف سے خبر دینے والا ہو۔ ” نَبَأٌ “ عام خبر کو نہیں بلکہ اس خبر کو کہتے ہیں جو بڑی عجیب یا اہم ہو۔ قرآن مجید میں یہ دونوں لفظ عموماً ایک دوسرے کی جگہ استعمال ہوئے ہیں، تاہم بعض مقامات ایسے ہیں جن سے دونوں کے مرتبہ یا کام کی نوعیت کے اعتبار سے کافی فرق پایا جاتا ہے۔ دیکھیے سورۂ حج (۵۲) شاہ عبد القادر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ”جس کو اللہ تعالیٰ کی وحی آئی وہ نبی، ان میں سے جو خاص ہیں اور امت رکھتے ہیں یا کتاب وہ رسول ہیں۔“(موضح)
➌ یہاں ” رَسُوْلًا “ کے بعد ” نَبِيًّا “ لانے کی ایک حکمت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ پیغام پہنچانے کے لیے کوئی بھی بھیجا جائے اسے رسول کہا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ بھیجے تو اس کا رسول، کوئی اور بھیجے تو اس کا رسول۔ جیسا کہ بعض مفسرین کے قول کے مطابق سورۂ یس میں مذکور مرسلین کسی نبی کی طرف سے بھیجے ہوئے داعی تھے اور جیسا کہ یزید بن شیبان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم عرفات میں ایک جگہ وقوف کیے ہوئے تھے (ان کے شاگرد عمرو بن عبد اللہ وہ جگہ امام کی جگہ سے دور بیان کرتے تھے) تو ہمارے پاس ابن مربع انصاری آئے اور انھوں نے کہا: [ إِنِّيْ رَسُوْلُ رَسُوْلِ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَيْكُمْ ][ أبوداوٗد، المناسک، باب موضع الوقوف بعرفۃ: ۱۹۱۹۔ ابن ماجہ: ۳۰۱۱ و صححہ الألباني ]”میں تمھاری طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا رسول یعنی پیغام لانے والا ہوں۔“ اس آیت میں ” رَسُوْلًا “ کی تاکید ” نَبِيًّا “ کے ساتھ اس لیے فرمائی کہ موسیٰ علیہ السلام کو کسی کی طرف سے بھیجا ہوا محض ایک داعی نہ سمجھا جائے، بلکہ وہ نبی بھی تھے جو وحی الٰہی سے سرفراز تھے۔