(آیت 48) ➊ وَ اَعْتَزِلُكُمْ وَ مَا تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ …: یعنی تم سے اور تمھارے معبودوں سے تعلق توڑ کر جب میں اپنے اکیلے رب کو پکاروں گا تو مجھے امید ہے کہ میں اپنے رب کو پکارنے میں بے نصیب نہیں رہوں گا اور وہ کسی بھی مرحلے پر مجھے بے یارو مددگار نہیں چھوڑے گا۔ اشارے سے یہ بھی کہہ دیا کہ میرا رب تمھارے بتوں کی طرح نہیں ہے کہ انھیں کتنا ہی پکارتے رہو، وہ خاک نفع نہیں پہنچا سکتے۔ ساتھ ہی اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنی عاجزی کا اظہار بھی کہ اس پر میرا یا کسی کا زور نہیں، محض اس کے فضل سے امید ہے، کیونکہ اس اکیلے کو پکارنے والا کبھی بے نصیب نہیں رہتا۔
➋ ابراہیم علیہ السلام کی کفار سے اور ان کے بتوں سے علیحدگی اور ایمان لانے تک واضح دشمنی کا ذکر قرآن میں کئی جگہ ہے۔ دیکھیے سورۂ انبیاء (۵۱ تا ۶۷)، سورۂ شعراء (۷۵ تا ۷۷) اور سورۂ ممتحنہ (۴)۔