(آیت 30) ➊ قَالَ اِنِّيْ عَبْدُ اللّٰهِ: گویا سب سے پہلا کلمہ جو عیسیٰ علیہ السلام نے اپنی زبان سے ادا کیا وہ اللہ تعالیٰ کی بندگی کا اعتراف تھا، جو ان کے خود اللہ تعالیٰ ہونے یا اللہ تعالیٰ کا بیٹا ہونے یا تین معبودوں میں سے ایک ہونے کی صاف نفی ہے۔
➋ اٰتٰىنِيَ الْكِتٰبَ......: ظاہر ہے کہ کتاب اور نبوت کا ملنا کچھ مدت بعد ہی ہوا ہو گا، کیونکہ دودھ پیتا بچہ نبوت کے فرائض دعوت و تبلیغ، اصلاح امت وغیرہ کیسے ادا کر سکتا ہے؟ اس لیے اس کے دو معنی ہو سکتے ہیں اور دونوں ہی درست ہیں۔ ایک تو یہ کہ ازل سے اللہ تعالیٰ نے میرا نبی ہونا اور مجھے کتاب ملنا لکھ دیا ہے، جیسا کہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ كُنْتُ نَبِيًّا وَآدَمُ بَيْنَ الرُّوْحِ وَالْجَسَدِ ][ صحیح الجامع للألباني: ۴۵۸۱، عن میسرۃ الفجر رضی اللہ عنہ ]”میں اس وقت نبی تھا جب آدم علیہ السلام روح اور جسم کے درمیان تھے۔“ حالانکہ اس بات پر اتفاق ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو چالیس برس کی عمر میں نبوت عطا ہوئی، اس لیے مراد تقدیر میں نبی لکھا ہونا ہے۔ دوسرا معنی یہ کہ ماضی کا لفظ بول کر مستقبل مراد لیا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کے فیصلے اتنے یقینی ہیں کہ سمجھو واقع ہو چکے ہیں۔ یہ اندازبیان قرآن مجید میں عام ہے، جیسے قیامت کے متعلق فرمایا: «اَتٰۤى اَمْرُ اللّٰهِ فَلَا تَسْتَعْجِلُوْهُ»[ النحل: ۱ ]”اللہ کا حکم آ گیا، سو اس کے جلدی آنے کا مطالبہ مت کرو۔“ اسی طرح سورۂ زمر کی آیت (۶۸) میں ماضی کے چاروں صیغے مستقبل کے معنی میں ہیں۔