(آیت 27) ➊ فَاَتَتْ بِهٖ قَوْمَهَا تَحْمِلُهٗ: اپنے بچے کی بات سن کر اور اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ کرامات دیکھ کر مریم علیھا السلام کو اطمینان ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ اسے ذلیل نہیں ہونے دے گا۔ چنانچہ وہ ایام نفاس گزرنے اور طبیعت بحال ہونے کے بعد کسی جھجک کے بغیر اپنے بچے کو اٹھائے ہوئے اپنے لوگوں کے پاس آ گئیں۔
➋ قَالُوْا يٰمَرْيَمُ لَقَدْ جِئْتِ شَيْـًٔا فَرِيًّا: ” فَرَي يَفْرِيْ “(ض) کا معنی چمڑے کو قطع کرنا ہے۔ ” فَرِيًّا “ بروزن ”فَعِيْلٌ“ بمعنی فاعل یا مفعول ہے، قطع کرنے والی یا قطع کی ہوئی، یعنی عام عادت اور معمول کے خلاف چیز، اس لیے اس کا معنی بعض نے عظیم، بعض نے عجیب اور بعض نے منکر یعنی انوکھی کیا ہے۔ بہتان کو بھی افترا کہتے ہیں، کیونکہ وہ بھی واقعہ کے خلاف ہوتا ہے۔ لفظی معنی ہے ”تو ایک انوکھی چیز کو آئی ہے “ یعنی تو نے ایک انوکھا کام کیا ہے۔ مراد کنواری کے ہاں بچے کی پیدائش ہے۔