(آیت 12) يٰيَحْيٰى خُذِ الْكِتٰبَ بِقُوَّةٍ …: اللہ تعالیٰ نے اس سے پہلے بہت سی وہ باتیں چھوڑ دیں جو خود ہی سمجھ میں آ جاتی ہیں۔ قصہ مختصر یہ کہ یحییٰ علیہ السلام پیدا ہوئے، کچھ سمجھدار ہوئے تو والد کے جانشین کے طور پر تیار کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے انھیں حکم دیا کہ اے یحییٰ! تورات کو قوت کے ساتھ پکڑو، یعنی اسے حفظ کرو، معانی و مطالب سمجھو، اس پر عمل کرو اور اس کے احکام پوری قوت کے ساتھ اپنے آپ پر اور پوری قوم پر نافذ کرو۔ اس مقصد کے لیے اللہ تعالیٰ نے انھیں بچپن ہی میں فیصلہ کرنے کی قوت عطا فرما دی اور وہ نو عمری ہی میں اپنے والد کے علم و فضل، بنی اسرائیل کی سیادت اور وحی و نبوت کے وارث بن گئے اور پوری قوت سے بنی اسرائیل کو تورات پڑھانے اور فیصلے کرنے لگے۔ والد کمزور تھے اور یہ نوجوان، سو والد کی جگہ لوگوں کو کتاب کا علم سکھانے لگے۔ اگر کوئی کہے کہ بچپن میں یہ کیسے ہو سکتا ہے تو جواب اس کا یہ ہے کہ نبوت کا سارا معاملہ خرقِ عادت یعنی دنیا کے عام معمول، عادت اور دستور کے خلاف ہوتا ہے، اس لیے اس خرق عادت پر بھی تعجب نہیں ہونا چاہیے۔