تفسير ابن كثير



تفسیر القرآن الکریم

(آیت 8) قَالَ رَبِّ اَنّٰى يَكُوْنُ لِيْ غُلٰمٌ …: عِتِيًّا عَتَا يَعْتُوْ عِتِيًّا بڑھاپے کی انتہا کو پہنچ جانا۔ خشک لکڑی کو عَاتٍ اورعَاسٍ کہتے ہیں، جو بھی بڑھاپے یا فساد یا کفر کی انتہا کو پہنچ جائے اسے عَاتٍ (عَتَا يَعْتُوْ سے اسم فاعل) کہا جاتا ہے۔(طبری)

یہاں خیال پیدا ہوتا ہے کہ خود ہی دعا کی، پھر یہ پوچھنے کا کیا مطلب کہ میرے لیے لڑکا کیسے ہو گا؟ جواب اس کا یہ ہے کہ زکریا علیہ السلام نے یہ سوال عام دستور کے خلاف بیٹے کی خوش خبری سن کر مزید اطمینان حاصل کرنے کے لیے غیر اختیاری طور پر کیا۔ اس کے علاوہ یہ سوال بے پناہ خوشی اور تعجب کے اظہار کی ایک شکل بھی ہو سکتا ہے۔ شاہ عبد القادر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: انوکھی چیز مانگنے پر تعجب نہ ہوا، جب سنا کہ ملے گی تب تعجب کیا۔ (موضح) بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ یہ پوچھنا دراصل معلوم کرنے کے لیے تھا کہ بیٹا اسی بانجھ بیوی سے ہو گا یا کسی اور بیوی سے اور میرے بڑھاپے کا کیا بنے گا؟



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.