(آیت 4) ➊ قَالَ رَبِّ اِنِّيْ وَهَنَ الْعَظْمُ …: ” الْعَظْمُ “ اگرچہ واحد ہے مگر مراد جنس ہے، یعنی میری جو ہڈی بھی ہے کمزور ہو گئی ہے۔ اگر جمع کا لفظ بولتے ” اَلْعِظَامُ “ یعنی ہڈیاں، تو اس سے ہڈیوں کا کوئی مجموعہ بھی مراد ہو سکتا تھا۔ ” اشْتَعَلَ الرَّاْسُ “ سارے سر کے بال سفید ہونے کو آگ کے شعلے مارنے سے تشبیہ دے کر آگ کا لفظ حذف کر دیا اور بڑھاپے کی وجہ سے سر کو شعلے مارنے والا بنا دیا، اسے استعارہ کہتے ہیں۔ ان الفاظ میں اپنی انتہائی کمزوری کا ذکر کرکے اللہ تعالیٰ سے دعا کی ہے، کیونکہ وہ کمزوروں پر زیادہ رحم فرماتا ہے۔ یہ دعا کے آداب میں سے ایک ادب ہے۔
➋ وَ لَمْ اَكُنْۢ بِدُعَآىِٕكَ رَبِّ شَقِيًّا: ” كَانَ “ ہمیشگی کے لیے ہوتا ہے، اس پر نفی آنے سے نفی کی ہمیشگی مراد ہوتی ہے کہ ایسا کبھی نہیں ہوا، اس لیے ترجمہ ”میں کبھی بے نصیب نہیں ہوا“ کیا گیا ہے۔ اس میں اپنے آپ پر اللہ تعالیٰ کے ہمیشہ لطف و کرم کا واسطہ دے کر دعا کی ہے، خصوصاً اس بات کا واسطہ دے کر کہ تو نے مجھے ہمیشہ دعا قبول ہو جانے کی عادت ڈال دی ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات کا ذکر کرکے دعا کرنا بھی دعا کے آداب میں شامل ہے، جیسا کہ سورۂ فاتحہ میں عرض مطلب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی تعریف ہے۔ علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: « وَ لِلّٰهِ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰى فَادْعُوْهُ بِهَا »[ الأعراف: ۱۸۰ ]”اور سب سے اچھے نام اللہ ہی کے ہیں، سو اسے ان کے ساتھ پکارو۔“