(آیت 3) ➊ اِذْ نَادٰى رَبَّهٗ نِدَآءً خَفِيًّا: اس آیت میں اس جگہ اور وقت کا ذکر نہیں جب ان کے دل میں اس دعا کا داعیہ پیدا ہوا۔ اس کی تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ آل عمران (۳۷، ۳۸)۔
➋ نِدَآءً خَفِيًّا: چھپی آواز سے آہستہ آواز بھی مراد ہو سکتی ہے اور لوگوں سے الگ جگہ میں دعا بھی۔ اس کی وجہ بعض اہلِ علم نے یہ لکھی ہے کہ بڑھاپے میں بیٹا مانگنا لوگوں کی ہنسی کا باعث ہوتا، پھر اگر نہ ملتا تو لوگ مزید ہنستے، مگر صحیح بات یہ ہے کہ خفیہ دعا ریا کا امکان نہ ہونے کی وجہ سے افضل ہوتی ہے، چنانچہ فرمایا: « اُدْعُوْا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَّ خُفْيَةً »[ الأعراف: ۵۵ ]”اپنے رب کو گڑ گڑا کر اور خفیہ طور پر پکارو۔“ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرض نماز کے بعد سب سے افضل نماز رات کی نماز کو قرار دیا۔ [ مسلم، الصیام، باب فضل صوم المحرم: ۱۱۶۳، عن أبي ھریرۃ رضی اللہ عنہ ] اور اس شخص کو عرش کا سایہ پانے والے سات خوش نصیبوں میں شمار فرمایا جس نے خلوت میں اللہ کو یاد کیا اور اس کی آنکھیں بہ پڑیں، حدیث کے الفاظ ہیں: [ ذَكَرَ اللّٰهَ خَالِيًا فَفَاضَتْ عَيْنَاهٗ ] اسی طرح اس شخص کو بھی جس نے اس طرح چھپا کر صدقہ کیا کہ بائیں ہاتھ کو معلوم نہیں کہ دایاں کیا خرچ کر رہا ہے، حدیث کے الفاظ ہیں: [ تَصَدَّقَ بِصَدَقَةٍ فَأَخْفَاهَا حَتّٰی لَا تَعْلَمَ شِمَالُهٗ مَا تُنْفِقُ يَمِيْنُهٗ ][ بخاري، الزکوٰۃ، باب الصدقۃ بالیمین: ۱۴۲۳ ]