(آیت 2) ➊ ذِكْرُ رَحْمَتِ رَبِّكَ عَبْدَهٗ زَكَرِيَّا: یہاں ”هٰذَا“ محذوف ہے، یعنی یہ تیرے رب کی اپنے بندے زکریا پر رحمت کا ذکر ہے۔ رحمت سے مراد یہاں زکریا علیہ السلام کی دعا قبول کرنا اور انھیں سخت بڑھاپے اور بیوی بانجھ ہونے کے باوجود یحییٰ علیہ السلام جیسا عظیم مرتبے والا بیٹا عطا فرمانا ہے۔
➋ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ كَانَ زَكَرِيَّاءُ نَجَّارًا ][ مسلم، الفضائل، باب من فضائل زکریا علیہ السلام: ۲۳۷۹ ]”زکریا علیہ السلام نجار (ترکھان) تھے۔“ اس سے معلوم ہوا کہ وہ داؤد علیہ السلام کی طرح اپنے ہاتھ کی کمائی سے کھاتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ مَا أَكَلَ أَحَدٌ طَعَامًا قَطُّ خَيْرًا مِنْ أَنْ يَّأْكُلَ مِنْ عَمَلِ يَدِهِ وَ إِنَّ نَبِيَّ اللّٰهِ دَاوٗدَ عَلَيْهِ السَّلاَمُ كَانَ يَأْكُلُ مِنْ عَمَلِ يَدِهِ ][ بخاري، البیوع، باب کسب الرجل و عملہ بیدہ: ۲۰۷۲، عن المقدام رضی اللہ عنہ ]”کسی شخص نے کبھی اپنے ہاتھ کی کمائی سے بہتر نہیں کھایا اور اللہ کے نبی داؤد علیہ السلام اپنے ہاتھ کی کمائی سے کھاتے تھے۔“